راجہ نذر بونیادی ایک عہد ساز شخصیت



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:....لیاقت عباس/ایشم اوڑی 

                  رابطہ :.  9697052804

  خوش طبیعت، ملنسار شخصیت، خوش اخلاق، مہمان نواز، سپاٹ چہرہ، چمکدار آنکھیں، خوبصورت لباس زیب تن کرنے والا، میٹھی اور سریلی آواز کا مالک، کھڑے اور گنے بال،  کئی ادبی اصناف میں طبع آزمائی کرنے والا مرد آہن، پہاڑی زبان کا متوالہ اُردو زبان کا عاشق اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک کا نام راجہ نذر بونیاری تھا۔ 

  حالات زندگی:۔

نام راجہ عبدالقیوم خان اور "نذر "تخلص تھا۔ چونکہ ان کا تعلق بونیار سے تھا اسی علاقے کی نسبت سے بونیاری کہلائے۔ ان کی پیدائش راجہ زبردست خان کہ گھر بونیار سے چار کلومیٹر دور ترکانجن گاؤں میں 02 /جنوری 1949ء میں ہوئی۔ بقول ان کے کہ ان کا اصل نام گھر والے بھی نہیں جانتے تھے۔ ان کا تعلق ہتھمال راجوں کی شاخ سے تھا۔ جو بارہمولہ سے نیچے جاتے ہوئے دریائے جہلم کے بائیں جانب آباد ہیں۔ ہتھمال راجوں کا تعلق ہندو راجپوت سے تھا جو بعد میں بمشرف اسلام ہو کر مسلمان ہوئے۔  وہ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے اسی گاؤں میں آباد ہیں۔ بچپن سے ہی کافی ذہین طبیعت کے مالک تھے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری ہائی سکول ترکانجن سے حاصل کی۔ مزید تعلیم ہائی سکول بونیار سے سال 1963ء میں حاصل کرنے کے بعد سال 1965ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج بارہمولہ سے بارویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ تعلیم مکمل کرنے  کے بعد ہی وہ فوراً محکمہ تعلیم میں بطور مدرس تعینات ہوئے۔ دوران ملازمت انہوں نے بی اے،  بی ایڈ اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1964ء میں پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ڈپلومہ بھی کیا۔ 18 برس کی عمر میں ان کی شادی سال 1967ء میں بارہمولہ کے زرگر خاندان بھی ہوئی۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ انجم قیوم اور عظمت قیوم۔ انہوں نے کئی سکولوں میں بطور مدرس اپنے فرائض بخوبی انجام دیے۔ 43/ سال ملازمت کرنے کے بعد وہ سال 2007ء  میں بطور ہیڈ ماسٹر نوکری سے باعزت طور سبکدوش ہوئے۔ ان کے طبیعت یافتہ طلبہ وطالبات آج کی اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے حج اور عمرہ کے مقدس فرائض بھی انجام دیے۔ 

      بچپن میں دیو مالائی کہانیاں، الف لیلہ کی کہانیاں سنائی جاتیں۔ خاص کر سردیوں کے دنوں میں قصہ خواں منظوم مثنویاں سناتے۔ یہ قصے اور کہانیاں بزمیاں بھی ہوتیں اور رزمیہ بھی۔ طربیہ بھی ہوتیں اور المیہ بھی‌۔ جب الف لیلہ کی کہانی پڑھی تب وہ دوسری یا تیسری جماعت کے طالب علم تھے۔ ان کی والدہ اور دوسری عورتیں مل کر چرخہ کاتتی،ان کے دادا فارسی،کشمیری اور پہاڑی میں غزلیں اور گیت گاتے۔ انہیں حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام زبانی یاد تھا۔ گلستان و بوستان، محاورے، ضرب المثل، پکی روٹی، احوال الآخرت، سیف الملوک، قصص المحسنین، لیلی مجنوں، کلام شمس فقیر، محمود گامی کے گانے گائے جاتے۔ ان کی والدہ سادہ لوح طبیعت کی مالک تھی۔ وہ اکثر کشمیری صوفیانہ کلام گنگناتی رہتیں۔ گھر کے ادبی ماحول کی وجہ سے ان کی شخصیت پر گہرا اثر پڑا۔ 10/ برس کی عمر میں انہوں نے ناول لکھنے کی کوشش کی۔ صرف چار سطور سے آگے نہ بڑھ سکے۔ داستانوں، قصے، کہانیوں کے علاوہ انہوں نے کئی جاسوسی ناول نے بھی پڑھے۔ اصلاحی،اسلامی تاریخی، ناولیں،رسائل و جرائد‌ کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ رسالہ شمع، ساقی، کھلونا، بیسویں صدی، آستانہ اور دین و دنیا کے ادب کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے۔ اس کے علاوہ کارٹون کے کئی رسالے بھی خریدتے رہتے۔ دوران تعلیم سکول میں کئی ادبی تقریب میں حصہ لینے کا موقع ملتا۔ اس زمانے میں جشن کشمیر نام کا ایک فیسٹیول بھی منایا جاتا تھا۔ جس میں مقامی فنکار اور گلو کار اپنے لوک ادب کو پیش کرتے۔ انہوں نے بھی اس پروگرام میں حصہ لیا اور مقامی زبان میں گانا شروع کیا۔ لوگوں کو ان کی آواز پسند آئی اور گانے پر پہلا انعام پانچ روپے جو مرکزی پلاننگ سیکرٹری ڈاکٹر سید عابد حسین نے اپنے ہاتھوں سے دیا۔ اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی۔ 

     اسی دوران وہ شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ چار تاریخی اشعار خود تحریر کیے تھے۔  دہلی کے ایک معروف شاعر کو دکھائے۔ اس نے اشعار پڑھ کر نامعقول جواب دیا اور ایسی درگت کی کہ پھر وہ کبھی شاعری کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ لیکن باہمت آدمی تھے۔ یہی اشعار ایک اور شاعر کو دکھائے اس نے حوصلہ دیا۔ اشعار کی تصحیح کرنے کے بعد جب انہوں نے کاغذ نذر صاحب کے ہاتھ میں تھمایا انہوں نے اس کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنے کی کوشش کی مگر کاغذ سے کلام بالکل غائب تھا۔ اس نامعقول رویے کی وجہ سے انہوں نے شاعری کرنی بالکل ترک کر دی۔ پھر وہ نثر کی طرف متوجہ ہوئے۔ جو ان کا اصلی میدان تھا۔ وہ ایک کامیاب گلو کار،ابتدائی دور کے شاعر،مشہور و معروف صحافی، ترجمہ نگار، ادیب، افسانہ نگار،انشائیہ نگار،مقالہ نگار،محقق،ماہر لسانیات بھی تھے۔ ان کو کتب بینی کا شوق بچپن سے ہی تھا۔اسی شوق کی وجہ سے وہ پہاڑی اور اردو کے نثری ادب میں وہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ 

     دوران ملازمت وہ طویل مدت تک صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ 1970ء میں روزنامہ چنار کے ایڈیٹر اور مشہور صحافی شمیم احمد شمیم کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ ماہنامہ رسالہ علم و دانش کے اعزازی مدیر بھی رہے۔ وادی سے باہر بھی ان کے ادبی و تنقیدی مضامین شائع ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ ہفتہ روزہ اخبار چٹان اور پکار کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ پہلے پہل انہوں نے اردو زبان میں طبع آزمائی کی۔ کوشش کامیاب ثابت ہوئی۔ انہوں نے ریڈیو کشمیر سرینگر اور دوردرشن کیندر سرینگر میں پہاڑی پروگرام کے ایڈوائزری کمیٹی کے ادارتی  سٹاف کے طور بھی پہاڑی زبان کے احیاء نو کے لیے اپنے فرائض بخوبی انجام دیے۔ وہ اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویج لال منڈی سرینگر کے شعبہ پہاڑی کے ایڈوائزری کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے رہے۔ انہوں نے کئی زبانوں میں طبع آزمائی کی۔ جن میں پہاڑی،اردو، گوجری زبان خاص طور پر شامل ہیں۔ وہ کئی برس تک DIET سوپور میں بھی اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بورڈ اف سکول ایجوکیشن میں بھی  ٹیکسٹ بک ایڈوائزری بورڈ  کئی سالوں تک اپنے فرائض منصبی نبھائے ۔ انہوں نے کئی ممالک کا دورہ بھی کیا۔ جن میں 1987ء سے اب تک کل ملا کر 28 /مرتبہ پاکستان کے زیر انتظام والے کشمیر کے علاوہ صوبہ پنجاب، صوبہ سرحد، ہزارہ اور کاغان اور اس کے ملحقہ علاقوں کا دورہ بھی  شامل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ممالک میں اکثر جایا کرتے تھے۔ انہوں نے میڈیکل کورس بھی کیا تھا۔ وہ اپنے گاؤں میں ڈاکٹر کے نام سے مشہور تھے۔ ترکانجن اور اس کے ملحقہ علاقوں کے لوگ ان کے پاس علاج و معالجہ کرانے کے لیے اکثر آیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ماہر نفسیات بھی تھے اور عوام کی فلاح بہبود کے لیے انہوں نے کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ ماحولیات پر بھی انہوں نے بہت کام کیا۔ لمبے عرصے تک وہ ایک پروگرام چلاتے رہے "جس کا نام تھا سرکار عوام کی عدالت میں" وہ لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرانے کے لیے مقامی ضلع اور تحصیل سطح کے افسروں کو دعوت دے کر بلاتے اور لوگوں کے مسائل موقع پر ہی حل کراتے۔ اس کے علاوہ ماحولیات پر بھی انہوں نے کئی کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔ جو ترکانجن اور اس کے ملحقہ علاقوں کی دیکھ بھال کے لیے دن رات محنت میں لگی رہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بونیار اور اس کے ارد گرد جنگلات سرسبز و شاداب ہیں۔ یہ انہی کی کوشش کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔ 

    70/ کی دہائی میں پہاڑی زبان کی احیا نو اور ترویج کے لیے جو ادبی اور لسانی تحریک شروع کی گئی وہ اس کے ہراول دستے کے سپہ سالار تھے۔ انہوں نے کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کی۔ گاؤں گاؤں، گلی گلی، محلہ محلہ، تحصیل، ضلع غرض ریاست کے کونے کونے کا دورہ کر کے عام لوگوں کو پہاڑی زبان کی اہمیت اور افادیت سے روشناس کرایا۔ ہراول دستے کے جن لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا نذر بونیاری اس کے روح رواں تھے۔ وہ ہر محفل کی جان تھے۔ ان کے بغیر ہر ادبی محفل ادھوری تھی۔ اس کے علاوہ وہ شاعر اور گلوکار بھی تھے۔ سال 1981۔ 82ء  میں انہوں نے ایک سکھ لڑکی گلو کار جتیندر سنگھ عرف گڈی کی سنگیت میں پہاڑی لوک گیت "ماہیا" گایا۔ یہ گیت پورے جموں کشمیر کے علاوہ ملک میں بھی مشہور ہوا۔  ان کی مدہوش اور سریلی آواز نے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 

   ان  کا پہلا مضمون سال 1964ء میں "بندہ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے" کے عنوان سے جموں سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ اخبار "زاد راہ" میں شائع ہوا۔ دوسرا مضمون "وادی ہاپت کھائی کی سیر" خدمت میں قسط وار شائع ہوا۔ اس کے بعد 1969ء "دوسرا آدم" کے نام سے ریڈیو کشمیر سرینگر ان کا افسانہ نشر ہوا۔ ان کی ادبی زندگی کا اغاز 1977ء سے ہوا۔ جب ان کا پہلا افسانہ "کلائمکس" کے نام سے مشہور و معروف جریدے بیسویں صدی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے تحقیقی مضامین اور افسانے مقامی اور ملکی سطح کے کئی رسائل اور اخباروں میں متواتر طور شائع ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ ان کے مضامین روبی، شمع، ہما، شبستان،شب خون، شاعر، شاخسانہ، پرواز، تراش، فلم، ویکلی، رفتار، نگینہ، دیہات، سدھار اور باجی جیسے مشہور و معروف رسائل میں متواتر شائع ہوتے رہے۔ اس دور میں رسالہ بیسویں صدی اور دوسرے کئی جرائد میں  اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگاروں کی تخلیقات شائع ہوتی تھیں جن میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، سجاد حیدر یلدرم، راجندر سنگھ بیدی، نور شاہ، مہندر ناتھ، رشید احمد صدیقی اور ابن انشاء جیسے لوگوں کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کی کہانیاں متواتر شائع ہوتی رہیں اور عام لوگوں کے علاوہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار بھی ان کی کہانیوں کو پڑھتے اور ان کی قابلیت کو سراہتے۔ "دانہ اور دہقان" کے نام سے ایک اور مضمون میرا کشمیر سے شائع ہوا۔ ان کی کہانیاں پڑھ کر ادبی حلقوں کی جانب سے کینیا ہندوستان اور پاکستان سے انہیں خط موصول ہوتے رہے۔ پہاڑی زبان میں ان کا پہلا افسانہ "لمیاں اڈیکاں" ( لمبا انتظار) شیرازہ پہاڑی سال 1978ء  میں شائع ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ پھر کبھی نہیں رکا۔ 

      اوڑی کی ہی ایک معروف علمی اور ادبی شخصیت مولانا چراغ حسن حسرت جو کہ بمبیار کے رہنے والے تھے۔ بعد میں ان کے والدین یہاں سے  ہجرت کر کے پنجاب چلے گئے۔ ان کی یاد میں نذر صاحب نے ایک کتب خانہ مطالعے کے لیے قائم کیا۔ لیکن ان کی غیر موجودگی میں اسے نظر آتش کر دیا گیا۔ جس میں بقول ان کے لگ بھگ 3500/ سے زائد کتابوں کا پیش قیمتی خزانہ جل کر راکھ ہو گیا۔ مولانا چراغ حسن حسرت کی یاد میں "عقاب" نامی ایک رسالہ بھی شائع کیا۔ جس کے وہ چیف ایڈیٹر اور راجہ شاہد شجاعت اس کے سب ایڈیٹر تھے۔ وہ 20/ برس تک اخبار روزنامہ چٹان کی ساتھ منسلک رہے۔ اور اسی اخبار میں وہ بعنوان "ایک پہلو یہ بھی ہے"  میں متواتر کالم لکھتے رہے۔ جموں یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ان پر ماسٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اس کے مقالے کا نام "راجہ نذر بونیاری فن اور شخصیت" ہے۔ اس کے علاوہ سرگودھا پاکستان کے ایک نوجوان سکالر نے بھی ان کی شخصیت اور ادبی کارنامے پر تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 

اُردو زبان میں ان کی ادبی تخلیقات۔ 

"یہ کس کی لاش ہے میرے کفن میں" اردو افسانوی مجموعہ۔

"دوسرا آدمی" اردو افسانوی مجموعہ۔ اشاعت 1971 ء

"بانجھ ماں کا بیٹا" اردو افسانوی مجموعہ۔

"دل نامہ" انشائیوں کا اردو مجموعہ۔ اشاعت 2019ء

"شاردہ پیٹھ تاریخ کے آئینے میں" بزبان اردو۔ سفرنامہ۔ یہ ان کی تحقیق کردہ سب سے اہم کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ شاردہ پیٹھ بدھ مذہب کے پھیلاؤ کی ایک بڑی یونیورسٹی تھی۔ اس یونیورسٹی میں پہاڑی زبان کو سرپرستی حاصل تھی۔ اسی لیے آج اسے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ 

پہاڑی زبان میں ان‌ کی تخلیقات۔

"پہاڑی زبان ادب دی تاریخ" یہ پہاڑی زبان کی پہلی کتاب ہے۔ جس میں پہاڑی زبان اور لسانیات پر جامع تحقیق کی گئی ہے۔ یہ کشمیر کے دونوں اطراف بسنے والے پہاڑی لوگوں کی  زبان کے لہجوں کے متعلق ایک جامع اور مدلل کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس کتاب کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبہ پہاڑی کے سیلیبس میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ لسانیات پر مکمل تحقیق کردہ پہاڑی زبان کی پہلی جامع کتاب ہے۔ 

"لعلاں دے بنجارے" یہ کتاب بھی پہاڑی زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس میں حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ ان کے حالات زندگی اور ان کے کلام پر مکمل تبصرہ کیا گیا ہے۔ 

"مٹھی نچھ" ( میٹھی چھینک) یہ کتاب بھی پہاڑی زبان میں لکھی گئی ہے یہ انشائیوں اور افسانوں پر مشتمل ہے۔ سن اشاعت 2018 ء 

"نمل" (صاف آسمان) یہ کتاب پہاڑی تحقیقی اور تنقیدی مقالوں پر مشتمل ہے۔ سن اشاعت 2017 ء 

اس کے علاوہ علامہ شبلی نعمانی کی سیرت النعمان جو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ النعمان رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر مشتمل ہے اس کا پہاڑی ترجمہ بھی نذر صاحب نے ہی کیا۔ 

"عکاس" سرزمین اوڑی  پر مکمل اور جامعہ کتاب جو اردو، کشمیری، پہاڑی اور گوجری زبانوں میں تحریر کی گئی ہے۔ اس میں راجہ نذر بونیاری، حاجی فیروزدین بیگ مرحوم، راجہ شاہد شجاعت، پیر زدہ احمدین انور مرحوم، عطا اللہ ممتاز، محمد افضل خان اور دوسری کی ادبی شخصیات نے مل کر اس کتاب کو ترتیب دیا۔ اس کے علاوہ ان کے ہزاروں کی تعداد میں مقامی اور ملکی غیر ملکی اخباروں اور جرائد میں ان کے مضامین اور افسانے شائع ہوتے رہے۔ آج بھی ان کے گھر ایک بڑی لائبریری موجود ہے۔ جس میں پہاڑی اور اردو زبان کا قدیم ترین ادبی نثری سرمایہ کافی تعداد میں بالکل محفوظ ہے۔ 

وہ کچھ عرصے سے بیمار تھے اور 20 /فروری 2024 /کو ممبئی کے ایک نجی ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے ان کی میت کو یہاں لانا ناممکن تھا اس لیے لواحقین کی مرضی کے مطابق انہیں ممبئی کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ایک ادیب اور شاعر کبھی نہیں مرتا۔ اس کی تخلیقات اور اس کے کارناموں کو قوم ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ جو کام نذر بونیادی نے کیے۔ ان پر جتنی بھی تحقیق کی جائے جتنا بھی لکھا جائے بہت کم ہے۔ نوجوان نسل کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کی لکھی ہوئی کتابوں اور ان کی لائبریری سے بھرپور استفادہ حاصل کریں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ جو کام انہوں نے پہاڑی زبان کے فروغ اور زبان کی ترویج کے لیے کیا وہ شاید کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ لیکن جو بھی کیا خلوص نیت سے کیا اور قوم کے مفاد کے لیے کیا۔‌ان کو خراج عقیدت ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کی تخلیقات کو پڑھا جائے اور عام کیا جائے،ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اپنے آپ نے میں ایک انجمن تھے۔ وہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ گوہر نایاب تھے۔ اگر ہم انہیں ایک یونیورسٹی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ان پر تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کو اور ان کے کارناموں کو یاد رکھ سکیں۔ 

وہ کچھ عرصے سے بیمار تھے اور 20 /فروری 2024 /کو ممبئی کے ایک نجی ہسپتال میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ موسم کی خرابی کی وجہ سے ان کی میت کو یہاں لانا ناممکن تھا اس لیے لواحقین کی مرضی کے مطابق انہیں ممبئی کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔