سُوئے لَداخ ( قسط :اوّل ) عمر فاروق
- noukeqalam
- 742
- 07 Nov 2023
مذکورہ سفر نامہ کا آڈیو سُننے کے لئے یوٹیوب لنک پر کلک کریں
سُوئے لَداخ ( قسط :اوّل ) عمر فاروق
تحریر :. عمر فاروق
مُدّتِ مَدید سے دل میں لداخ جانے کی خواہش موجود تھی اور اس کی شدّت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا ۔ہماری کلاس کے سی آر برادر سجاد مشتاق وقتاً فوقتاً ہمیں لداخ جانے کی خوش خبری سناتے تو ہمارے مردہ جسموں میں جیسے جان آجاتی اور ہم خیالوں کی دنیا میں ہی وہاں کی سیر کرکے آجاتے ۔ایسا متعدد بار ہوا۔سفرِ لداخ کی خواہش اپنے مشتاق دلوں میں چھپائے ہماری کلاس کے طلباء ہر گزرتے دن کے ساتھ بے چین دکھ رہے تھے ۔برادر سجاد کی وہاٹس گروپ میں مسیج سے کبھی ہم توقعات کا خیالی شیش محل تعمیر کرتے تو کبھی یہ سارا محل چشمِ زدن میں ہی دھڑام سے گِر کر زمین بوس ہوجاتا۔اب ہمارے سفرِ لداخ کی امید ہی دم توڑ بیٹھی تھی۔ حتی کہ جب پھر سے سفر کی افواہوں کا بازار گرم ہوا تو مجھے مجبوراً مرزا غالب کے الفاظ میں کہنا پڑا" کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا"۔مگر کالج انتظامیہ نے جب ہمیں ہفت روزہ روانگی کا پروانہ تھماکر جانے کی اجازت مرحمت فرمائی تو ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے۔
دیر آید درست آید کے مصداق مزید تضییعِ اوقات کے بغیر ہی ہم سفر کی تیاریوں میں مصروف ہوئے۔چوں کہ ایک ہفتے کیلئےایک ایسی جگہ جانا تھا جو لسانی ،جغرافیائی،تہذیبی، ثقافتی اور موسمی لحاظ سے ہماری وادی سے بہت مختلف ہے ۔اس لئے ہم بڑے ہی اہتمام کے ساتھ تیاریاں جاری رکھے ہوئے تھے۔چند دن کے بعد ہی آخر وہ ساعت آ ہی گئی جب ہم دو بسوں میں سوار ہوکر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔شالہ ٹینگ کے راستے اور کنگن گاندربل سے ہوتے ہوئے قریباً ایک بجے سونہ مرگ پہنچے ۔سونہ مرگ وادیِ کشمیر کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جو سرینگر سے تقریباً 80 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔بلند و بالا پہاڑوں سے مزیّن ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کے پانی کی صاف و شفاف ندیاں اس کی خوبصورتی میں بدرجہا اضافہ کرتی ہیں۔پتھروں سے ٹکراتے یہاں کے بہتے پانی کی مسحور کُن آواز جمالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے کسی نعمتِ کُبریٰ سے کم نہیں ہے۔اوپر سے مصنوعی شور و غوغا سے پاک یہاں کی فضا کا سکوت ایسا کہ جس پر تقریر بھی ہزار بار فِدا ہو۔یہاں ہم کچھ دیر کیلئے رُکے اور چائے نوش کی۔چائے کے اثر سے بند دماغ کے دروازے کُھلنے لگے اور ہم نے تازگی محسوس کی ۔بھلا بندہ اچھی بنی چائے کی چُسکیاں لے اور اس سے اس کی طبیعت بہتر نہ ہو ایسا بھی ممکن ہے ؟
پھر سے دو بسوں پر مشتمل یہ قافلہ روانہ ہوا اور ہم چلتے چلتے زوجیلا پہاڑوں تک پہنچ گئے۔زوجیلا کا یہ راستہ انتہائی بلندی سے ہوتا ہوا آگے جاتا ہے۔ہزاروں فٹ کی بلندی سے نیچے کی طرف دیکھنے سے ہی خوف آتا ہے۔بھلا خوف کیوں نہ آئے ۔"بلندی" پر ٹکنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے ؟ ۔گِر گِر کر سنبھلنا پڑتا ہے۔ عموماً موسمِ سرما کے دوران یہ راستہ بند ہوجاتا ہے اور وادیِ لداخ کا دوسری دنیا سے زمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔مگر ایک عرصے سے زوجیلا ٹنل پر کام جاری ہے۔جس کی تکمیل سے ایک طرف راستے کی دشواری کم ہوگی تو دوسری طرف اس راستے سے سال بھر لوگوں کی آمدورفت جاری رہے گی۔
چہار جانب سے یہ علاقہ پتھریلے پہاڑوں سے گِرا ہوا ہے ۔اوپر سے ان پر کوئی درخت بھی نہیں ہے۔بس ان کی چوٹیوں پر برف کی ہلکی سی چادر ان کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ہے۔کچھ پہاڑ قدرے سرخ رنگ کے بھی ہیں ۔برفیلے پہاڑوں پر سورج کی روشنی پڑنے سے ان کی خوبصورت تصویریں آنکھوں کو اچھی اور دل کو بھلی لگتی ہیں۔مِنامرگ کے مقام پر ہم نے کھانا کھایا اور باجماعت نماز ادا کی ۔یہاں کے صاف و شفاف ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے سے جسم کی ساری تکان اور سستی دم توڑ بیٹھی۔ان قدرتی مناظر کے درمیان خدا کے حضور اپنی جبینِ نیاز جھکانے کا کچھ الگ ہی مزہ ہے ۔یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ کے ساتھ ساری کائنات خالقِ کائنات کے سامنے سجدہ ریز ہورہی ہو۔آصف بھائی نے خود بہت لذیذ بریانی پکائی تھی۔مسالے بھی حد میں ہی استعمال کئے تھے ۔ورنہ انسان یہ مسالہ دار بریانی زیادہ نہیں کھا پاتا۔
نماز سے فارغ ہوئے ،چند تصویریں کھینچیں اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔دراس ہہنچے تو یہاں کرگل جنگ کی یادگار بھی دیکھنے کا موقع ملا۔سورج اب رات کی کالی چادر کے پیچھے چھپنے ہی والا تھا کہ ہم اب کرگل کی جانب روانہ ہوئے۔کشاں کشاں عشاء کے وقت کرگل میں تھکے ماندے داخل ہوئے۔
( جاری )