"حقیقی تعلیم "جو ظلمات میں نور پھیلائے : غازی سہیل خان



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



٭……غازی سہیل خان


فاؤنڈیشن ورلڈ اسکول (Foundation  world school) جس کی ایک شاخ ہمہامہ سرینگر میں ہے اور دوسری بڑی شاخ مامتھ بڈگام میں ہے، مذکورہ اسکول نے گذشتہ ہفتے اندور اسٹیڈیم  سرینگر میں سہ روزہ ”سالانہ دن“(Annual day)منایاگیااورمیں اسی تقریب کے حوالے سے بات کرنا چاہتاہوں،تاہم میں اسی پس منظر میں پہلے آپ کے سامنے عصری نظام تعلیم اور ہمارے تعلیمی اداروں کے کردار کے حوالے سے چند باتیں آپ کے سامنے رکھنا چا ہتاہوں تاکہ سب باتیں واضح ہو جائیں۔دنیا میں آج کی تاریخ میں شرح خواندگی اپنے عروج پر ہے۔سائنس ٹیکنالوجی نے ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، بلکہ انسان کی سوچ سے بھی زیادہ سا ئنس آگے نکل چُکی ہے،تعلیم کو عام کیا جا رہا ہے اور حکومتوں کی یہ کوشش بلکہ مشن ہے کہ کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔سرکاری اسکولوں میں چھوٹے بچوں کو کتابوں، وردیاں، کھانا اور وظائف سے بھی نوازا جاتا ہے، وہیں استاد بچے کو چھڑی سے مارنا تو دور اونچے لہجے میں بول بھی نہیں سکتا۔مجھے اپنا زمانہ یاد آتا ہے جب ٹیچر ہمارے لیے گھر سے ہی چھڑیاں لاتے تھے، بلکہ چند اساتذہ صاحبان جب گھر سے اسکول کی طرف نکلتے تو معمول کے مطابق ایک پولیس والے کی طرح چھڑی کو ہاتھ میں اُٹھا کے اسکول آتے، جس کے نتیجے میں بہت سارے بچوں نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا، اور چند نے گھر والوں کے پڑھنے کی ضد کے نتیجے میں اسکول کے ساتھ ساتھ اپنے گھر وں کو بھی خیر باد کر دیا۔وہیں ان میں سے جس نے بھی اُستاد کی مار کو سہہ کے آگے بڑھا وہ بہت آگے پہنچ گیا۔ویسے اُس زمانے میں استاد کی مار اور آج کے نہ مارنے کی پالیسی کے منفی و مثبت نتائج سامنے آئے ہیں وہ قارئین خود بھی سمجھتے اور جانتے ہیں۔اور استاد کی اس مار کے منفی پہلو ؤ ں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔

بہر کیف میں تعلیم پر آتا ہوں، میں عرض کر رہا تھا کہ شرح خواندگی بہت بڑھ گئی ہے، وہ کوئی گھر نہیں ہوگا جہاں بچے پڑھتے نہ ہوں، کوئی محلہ اور گاؤں نہیں ہوگا جہاں ڈاکٹرز،انجینئرز اور استاد نہ ہوں اور کوئی ایک ضلع اور تحصیل نہیں جہاں KASاور IASافسران نہ ہوں۔وہ اس لیے کہ تعلیم انسان کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لاتی ہے، اور سماج و معاشرے کو امن و آشتی کا ماحول فراہم کرتی ہے، تعلیم ہی سے ظلم و جبر، قتل و غارت، غریبی و مفلسی، فحاشیت و عریانیت دور بھاگتی ہے،دنیا میں امن اور سکون آتا ہے۔ یہ سب کچھ تو میں حق و حقیقت کہہ رہا ہوں تاہم مجھے معلوم نہیں مجھے اپنی ان باتوں پہ شک کیوں ہو رہا ہے،میں ایسا محسوس کر رہا ہوں جیسے میرے اندر کا انسان مجھے ٹوکتے ہوئے کہتا ہو کہ ارے کیا جھوٹ کہہ کے عوام کو دھوکے میں ڈال رہے ہو۔میں یہ تعلیم کی کیسی تشریح کر رہا تھا؟ کیا واقعتا ً شرح خواندگی کے بڑھنے سے تعلیمی نظام نے دنیا میں اس قسم کی تبدیلیاں لائی ہیں۔؟ویسے جب میں دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے پر نظر ڈالتا ہوں تو جو تعلیم کی تشریح  میں نے اوپر کی ہے میں آج اس کے برعکس ہو رہا ہے۔مثلاًبے روزگاری اپنے عروج پر ہے، بدامنی اور قتل غارت گری ہر سو ہے، غریب،غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہے ہیں۔ دنیا کی نصف سے زائد دولت محض ایک فیصد افراد کے پاس ہے، فحاشیت و عریانیت نے معاشرے اور گھریلوں نظام کو تحس نحس کر دیا ہے،ہر طرف افرا تفری کا ماحول ہے۔

یعنی جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تعلیم سے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں اور روشنی سے دنیا منور ہوتی ہے اسی میں ہمیں یہ بھی بولناہوگا کہ موجودہ نظام تعلیم کے سبب دنیا اب اُس بچی کھچی روشنی سے بھی محروم ہونے لگی ہے جو نبی مہربان ﷺ ہمارے لئے چھوڑ کر گئے ہیں۔یعنی نظام تعلیم کی بنیاد ہی ایسی ہے کہ ہم انسان نہیں بلکہ مشینیں تیار کر رہے ہیں، اس نظام کے ذریعے ہمارے نو نہالوں کے جذبات و احساسات کا خون کیا جا رہا ہے،ماڈرن ازم اور نام نہاد ترقی کے نام پر ہمارے بچوں کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ وہیں اس دوران ہمارے اداروں میں تعلیم کے نام پر خدا بیزاری کی تعلیم دی جا رہی ہے اور تعلیم کے مقصد کاجنازہ تب نکلتا ہے جب اسکولوں میں سالانہ دن کے نام پر بچوں اور بچیوں کو ایک اسٹیج پر نچایا جاتا ہے، میں حیران ہوں کہ کیسے بہت سارے تعلیمی اداروں میں سالانہ دن پرکلچر،تہذیب فن و ثقافت کے نام پر بچوں کی خواہشات کی قربانی دی جاتی ہے۔اس حوالے سے والدین بھی پیچھے نہیں ہیں وہ اپنے بچے کو آگے لے جانے کے لئے ان کو اپنے ماضی، اپنے دین کی نسبت کو منقطع کر کے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بچوں کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح کر دیتا ہوں کہ بچوں کا دنیا کے مختلف علوم و فنون، سائنس و ٹیکنالوجی کو پڑھنا اس میں تخصص حاصل کرنا کوئی غلط بات نہیں اور نہ ہی ہم اس کے مخالف ہیں، لیکن ان علوم کی بنیاد پر اپنی اصل، ماضی،فطرت اور دین سے بچوں کو دور کرنا ہمارے ملک وقوم کے لئے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کے لئے سِم قاتل ثابت ہو رہا ہے۔
تاہم اس مایوسی کے عالم میں چند زندہ دل اور بڑی سوچ والے افراد آج بھی ہمارے سماج میں کھڑے ہوئے ہیں، جن کی یہ کوشش ہے کہ وہ بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو اپنے ماضی سے جوڑ کر معاشرے  کو انسان نُما روبوٹ کے بجائے ایک کامیاب اور پُر امید انسان فراہم کریں جن کے سینے میں دنیا کے مجبوروں اور لاچاروں کے لئے دل دھڑکتے ہوں، جو ہمارے مستقبل کے لئے ایک اُمید بن کے آئیں،جن سے دنیا میں جنگ و جدل نہیں بلکہ امن سکون ملے،جن کی معاشرتی زندگی غیروں کے لئے ایک نمونہ بنے،جن کے گھر اور بازار ساری دنیا کے لئے ایک مثال بنیں، یعنی زندگی کے ہر ایک شعبے میں ساری دنیا کے لئے ایک روشن مستقبل کی نوید لے کے آئیں۔ اسی سوچ و فکر کے مطابق  ہمارے کشمیر میں خصوصاً چند تعلیمی ادارے آج بھی یہ کارِ عظیم انجام دے رہے ہیں جن سب کا تذکرہ کرنا یہاں کر نہیں سکتا،تاہم ان ہی اداروں میں ایک نام فاؤنڈیشن ورلڈ اسکول  (FOUNDATION WORLD SCHOOL) ہے۔راقم الحروف گزشتہ ایک سال سے اس ادارے کے ساتھ وابستہ ہے۔جہاں کے تعلیمی سیٹ اپ کو دیکھ کر خاصا متاثر ہوا ہوں،وہیں گذشتہ دنوں جب انڈور اسٹیڈیم سرینگر میں ”سہ روزہ سالانہ دن“ کی شاندار تقریب منعقد ہوئی تو دل نے گواہی دی کہ ابھی ہمارے پاس ایسی پاکیزہ فکر و سوچ والے انسان ہیں جو ملت کے بچوں کا حقیقی درد رکھتے ہیں اور ایک ایسی نسل کو تیار کرنا چاہتے ہیں جو عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی آگے آ کے انسانیت کے لئے ایک بہترین نمونوں کی صورت میں پیش ہوں،کیوں کہ عصر حاضر میں دنیا  ایسے انسانوں کو دیکھنے اور سُننے کے لئے ترس رہی ہے جن کے سینوں میں دھڑکتے دل،زندہ ضمیر اور انسانیت کے لئے جینے کا جذبہ رکھتے ہوں،نہیں تو آج ہمارا نظام تعلیم 15/سے 20/سالوں میں طالب علموں کو ڈگریوں کے انبار تھما دیتے ہیں۔ بہر کیف متذکرہ بالاپروگرام میں بغیر ناچ نغمے کے بچوں نے نا قابل یقین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہاں ان بچوں والدین اور مہمان ورطہ حیرت میں پڑ گئے کہ کیسے ان بچوں نے اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اپنے پروگرام پیش کیے جس کا اظہار ان کے والدین نے میڈیا کے سامنے بھی کیا۔ ہر ایک کے پرو گرام میں نصیحت،حکمت،تدبُراور علم تھا بچوں نے نت نرالے انداز میں اس آلودہ سماج کو آئنیہ دیکھانے کی بھر پور کوشش کی۔بلکہ میں اب یہ کہوں گا کہ ہم میوزک کے بغیر بھی بچیوں او ربچوں کو ایک اسٹیج پر نچانے،تہذیب و ثقافت کے نام پر بچوں کے جذبات و خیالات کو پیروں تلے مسلے بغیر بھی اپنے آقا ﷺ کی مبارک زندگی کو نمونہ بنا کے اپنی نوجوان نسل کی تربیت و راہنمائی کر سکتے ہیں۔جس کا نمونہ فاونڈیشن ورلڈ اسکول(FWS) نے پیش کیا ہے۔وہیں اس اسکول کی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ کشمیر کا واحد اسکول ہے جو کیمبرج کے نصاب کے ساتھ وابستہ ہے۔ کیمبرج کے نصاب پر من و عن عمل کرتے ہوئے دینی تعلیم کا بھر پور انتظام ہے جس میں قابل اور محنتی ا ساتذہ صاحبان اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اسکول میں نماز کو پابندی سے ادا کیا جاتاہے،جہاں مذکورہ اسکول عصری تعلیم میں پیچھے نہیں وہیں کھیل کود میں بھی ریاستی سطح پر طلبہ نے اسکول کا نام روشن کیا ہے۔ اسکول میں انتظامیہ،اساتذہ اور دیگر عملہ ایک فیملی کی طرح رہنے کی کوشش کرتے ہیں  باوجود اس کے کہ ابھی بھی چند چیزوں کو بہتر سے بہترین کرنے کی ضرورت ہے،ہم اُس کی اُمید رکھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سب چیزوں کو دیکھا جائے گا  ان شاء اللہ۔غرض اگر اس طرح سے یہاں کے تعلیمی ادارے کا م کرنا شروع کریں تو وہ دن دور نہیں جب ان اداروں سے بچے (ہمارا مستقبل)روبوٹس نہیں بلکہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے لقب سے ملقب کیا ہے بن کے نکلیں گے۔ان شاء اللہ۔

رابطہ 7006715103

٭٭٭