سیرت ﷺ،سرسید احمد خان کا تعارف۔
- noukeqalam
- 863
- 25 Oct 2023
نام کتاب:۔ سیرت ﷺ،سرسید احمد خان
مصنف:۔ سرسید احمد خان
صفحات:۔ 480
قیمت:۔700روپے
ناشر:۔ ملی پبلی کیشنز،نئی دہلی
مبصر:۔ غازی سہیل خان
دنیا میں بہت سارے ایسے عاشقان رسول ﷺ گزرے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی عقیدت و محبت میں ہزاروں کتابیں تصنیف کی,وہیں غیر مسلموں میں بھی بہت سارے مصنفین گزرے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی محبت میں اور چند نے آپ ﷺ کی بے جا مخالفت اور تعصب کی بنیاد پر سیرت کے واقعات کو توڑ مڑوڑ کر کتابوں کے صفحات کو سیاہ کیاہے جو آج بھی جاری ہے۔اسی طرح 1870ء میں ولیم میور نام کے ایک مغربی مصنف نے life of Mohammedکے نام سے چار جلدوں میں ایک کتاب شائع کی جس میں اُس نے آپ ﷺ کی زندگی کے مختلف گوشوں کو توڑ مڑوڑ کے پیش کر کے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔مذکورہ کتاب کے متعلق انگریزوں کا کہنا تھا کہ ”اس کتاب نے اسلام کے استیصال کا فرض ادا کیا ہے“۔اس کتاب کی اشاعت سے انگریز وں کی مکرہ سازش کا اثر مرحوم سرسید احمد خان کی زندگی پر بھی خاصا پڑا۔جس کے جواب میں سرسید مرحوم نے اس انگریز کی ریشہ دوانیوں اور انتہائی گھٹیا قسم کے الزامات کا جواب دینے کی ٹھان لی۔لیکن اس کتاب کا جواب دینا اُتنا آسان نہیں تھا جتنا اُس وقت لوگوں نے سجھا ہو گا۔کیوں کہ اُس دور میں نہ ہی انٹرنیٹ اور نہ ہی وہ مواد ہندوستان میں موجود تھا جس کی بُنیاد پر اس انگریز کو جواب دیا جاتا۔ ان سارے مشکلات کو دیکھتے ہوئے سرسید مرحوم نے ہندوستان چھوڑ نے سے پہلے اپنی کوٹھی اور ذاتی کُتب ضانہ بیچ کر دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں اور کُتب خانوں کی خاک چھان کے لاطینی،انگریزی اور دوسری زبانوں کے ترجمے کروا کے پڑھے اور تب جا کے خطبات احمدیہ کے نام سے 1887ء میں ایک کتاب کا وجود عمل میں لا کے ملت اسلامہ پر ایک احسانِ عظیم کیا۔ انگلستان میں بیٹھ کر اس انگریز کو جواب لکھنے کے متعلق ایک انگریز مصنف نے لکھا ہے کہ ”ایسی مثالیں تو پائی جاتی ہیں کسی مسلمان نے بمقابل عیسائیوں کے اپنی زبان میں اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر اسلام کی حمایت میں کوئی کتاب لکھی اور اس کا ترجمہ کسی یورپ کی زبان میں ہوگیا لیکن مجھے کوئی ایسی مثال معلوم نہیں کہ کسی مسلمان نے پورپ جا کر یورپ ہی کی کسی زبان میں اس مضمون میں کتاب لکھ کر شایع کی ہو۔“ صفحہ ۱۱۔آج میں نے خطباب احمدیہ جس کا جدید نام سیرت ﷺ سرسید احمد خان ہے جس کو کوثر فاطمہ نے مرتب کیا ہیکا مطالعہ مکمل کیا ہے۔سر ولیم میور کی کتاب کی اشاعت کے بعد سرسید کو کتنا دلی صدمہ پہنچا محسن الملک کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”ان دنوں زرا میرے دل کو سوزش ہے۔ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرت ﷺکے حالات میں لکھی ہے،اُس کو میں دیکھ رہا ہوں،اس نے دل کو جلا دیا،اُس کی نا انصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا اور مصمم ارداہ کیا کہ انحضرت ﷺکی سیرت میں جیسے کہ پہلے بھی ارادہ تھا کتاب لکھ دی جائے۔اگر تمام روپیہ خرچ اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے!قیامت میں یہ کہہ کر پکارا جاؤں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو،جو اپنے دادا محمدﷺکے نام پر فقیر ہو کر مر گیا،حاضر کرو۔“صفحہ13۔اس اقتباس سے سرسید کا درد جھلکتا ہے۔اس کتاب کو مصنف نے بے سروپا قصے اور کہانیاں اور اسرائیلیات سے پاک رکھا ہے مرتب موصوف نے اس کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ ”سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب سے اُردو زبان میں سیرت نگاری کے ایک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے“۔ذاتی طور پر میں اس کتاب کو پڑھ کے خاصا متاثر ہوا ہوں احادیث اور قرآن کے حوالوں اور علم حدیث پر گہری نظر کے سبب میں یہ کہتا ہوں کہ سرسید مرحوم کو اگر محدث اور علامہ کہہ کے بھی پکارا جائے تو بے جا نہیں ہوتا۔اس کتاب کو لکھتے ہوئے سرسید کو خاصی مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑا لیکن عشق نبی ﷺ کا ایسا جذبہ موصوف کے دل میں تھا کہ ہزاروں مشکلات کے باوصف اس کتاب کو لکھنے سے باز نہیں رہیے۔ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”مواعظ احمدیہ (یعنی خطبات احمدیہ)لکھنے میں شب و روز مصروف ہوں،اس کے سوا اور کچھ خیال نہیں،جانا آنا ملنا جُلنا سب بند ہے۔آپ اس کے پہنچنے پر میر ظہور حُسین کے پاس جایئے اور دونوں صاحب کسی مہاجن سے میرے لئے ہزار روپیہ قرض لیجیے،سود اور روپیہ میں ادا کروں گا۔“ ایضاًصفحہ 16۔
خطبات احمدیہ بارہ طویل خطبوں پر مشتمل ہے۔اُردو زبان میں لکھنی جانے والی سیرت ﷺکے موضوع پر پہلی باقاعدہ کتاب ہے۔اس کتاب میں خطبات احمدیہ کا تعارف کے موضوع کے تحت مولانا الطاف حُسین حالی ؒ نے طویل تعارف پیش کیا ہے۔اس کے بعد الگ الگ عنوان کی صورت میں بارہ خطبوں کو پیش کیا گیا ہے۔میں بھی یہاں حالی مرحوم کے تعارف کی مدد سے ان خطبوں کا مختصراً تعارف پیش کروں گا۔
پہلا خبطہ:۔ پہلے خطبے میں جو کہ سب سے بڑا اور بجائے خود اپنے آپ میں ایک کتاب ہے میں عرب کا نہایت مفصل و تاریخی،جغرافیہ مسلمانوں کے بعض مسلمات کے ثابت کرنے کے لئے جن کا سرولیم میور نے اپنی کتاب میں انکار کیا ہے۔
دوسرا خطبہ:۔دوسراخطبہ اس غرض کے لئے لکھا گیا ہے کہ لوگوں کو اس بات کا اندازہ کرنے کا موقع ملے کہ اسلام سے پہلے عرب کی حالت کیا تھی اور اسلام کے بعد ان کے اخلاق و عادات اور عقائد و خیالات کس درجہ تک تبدیل ہو گئے۔
تیسرا خطبہ:۔اس میں میں ان ادیان مختلفہ کا جو اسلام سے پہلے عرب میں شایع ہوئے اور اس بات کا بیان ہے کہ اسلام ان تمام ادیان میں کون سے دین سے مشابہت رکھتا ہے؟اس خطبے میں بیان کیا گیا ہے کہ اہل عرب اسلام سے پہلے چار فرقوں میں منقسم تھے۔بُت پرست،خدا پرست،لامذہب،اور معتقدین مذیب الہامی۔ان میں سے اول تین فرقوں کا ذکر کرنے کے بعد عرب کے الہامی مذاہب کی تفصیل بیان کی ہے۔
چوتھا خطبہ:۔ مصنف نے اس مضمون کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے جن میں سے پہلے حصے میں فائدے بیان کیے ہیں جو اسلام سے عموماً انسان کی معاشرت کو پہنچے ہیں اور اس کے ثبوت میں ان مشہور اور نامور عیسائی مصنفوں کے اقوال نقل کیے ہیں جنہوں نے اسلام کے حق میں مذہب اسلام کے مفید ہونے کی نسبت شہادتیں دی ہیں۔دوسرے حصے میں ان عیسائی مصنفوں کی رائے کی تردید کی ہے جنہوں نے اسلام کو نوع انسانی کی معاشرت کے حق میں مضر بتایا ہے۔ تیسرے حصے میں ان فائدوں کا بیان ہے جو یہودی اور عیسائی دونوں مذہبوں کو بالا شتراک اسلام کی بدولت حاصل ہوئے ہیں۔چوتھے حصے میں ان فائدوں کو بیان کیا ہے جو اسلام کی بدولت خاص عیسائی مذہب کو پہنچے ہیں۔
پانچواں خطبہ:۔اس میں میں نہایت تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو مذہبی کتابوں یعنی کتب حدیث،کتب سیر،تفاسیر اور کتب فقہ کی تصنیف کا منشا اور غرض اور ڈھنگ بیان کیا ہے تاکہ غیر مذہب کے محقق اور نکتہ چیں جو اسلام کی نسبت آئندہ زمانہ میں کچھ لکھنا چائیں ان کو مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کی طرز تصنیف سے آگاہی اور بصیرت حاصل ہو۔
چھٹا خطبہ:۔اس میں مذہب اسلام کی روایات پر لکھا گیا ہے کہ یہ خطبہ کسی قدر طولانی ہے،اس لئے صرف اس کی سرخیاں لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
ساتواں خطبہ:۔اس میں اول قرآن مجید،اس کا نزول،اس کی سورتوں اور آیتوں کی ترتیب،اس کی مختلف قراتیں،آیات،ناسخ و منسوخ کی بحث،اس کے جمع ہونے کا زمانہ،اس کی نقلوں کی اشاعت اور اس کا کامل اور الہامی ہونا بیان ہوا ہے اور اس کے بعد سر ولیم میور اور دیگر عیسائی مصنفوں کی غلطیاں جو انھوں نے قرآن مجید کے متعلق کی ہیں بیان کی ہیں۔
آٹھواں خطبہ:۔یہ خطبہ بہ اس غرض سے لکھا ہے کہ سرولیم میور نے اپنی کتاب لائف آف محمد ﷺ میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ یقطان جس کا ذکر توریت میں جا بجا آیا ہے،اہل عرب کا اس کی اولاد میں ہونا،حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مکہ کے قریب ہونا،خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کی تمام مراسم کا ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام سے تعلق ہونا یہ سب بناوٹ اور افسانہ ہے۔نعوذ بااللہ
نواں خطبہ:۔یہ خطبہ آپ ﷺ کے نسب کی تحقیقات پر ہے۔اس خطبہ کے لکھنے کا منشا یہ تھا کہ سرولیم میور نے اپنی کتاب میں آپ ﷺ کے بنی اسماعیل ہونے سے انکار کیاہے۔
دسواں خطبہ:۔اس میں بشارتوں کے بیان میں ہے جو توریت اور انجیل میں آپ ﷺ کے نبی ہونے کی بابت مذکور ہیں۔اس خطبے میں سرسید نے قرآن کی وہ آیتیں بھی نقل کی ہیں جن میں اس بات کا بیان ہے کہ توریت اور انجیل میں آپ ﷺ کو نبوت کی خبریں دی گئی ہیں۔
گیارہواں خطبہ:۔اس خطبہ میں معراج اور شق صدر کی حقیقت محققانہ طور سے بیان کی ہے۔اور اس باب میں جس قدر مختلف اور متناقص روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں ان کا اختلاف اور تناقص دکھایا اور اس لئے جس قدر کہ قرآن مجید میں معراج کی نسبت بیان ہوا ہے،صرف اسی پر معراج کے واقعہ کا انحصار رکھا ہے اور معراج کو رؤیا پر محمول کیا ہے جس کا ایک جُز و شق صدر بھی تھا اور عیسائیوں کے طعن کا جواب الزامی اور تحقیقی دونوں طرح کا دیا ہے۔
بارہواں خطبہ:۔اس خطبہ میں آپ ﷺ کی ولادت سے بارہ برس کی عمر تک کا حال جس قدر معتبر اور صحیح روایتوں سے ثابت ہوتا ہے،بیان کیا ہے۔
الغرض مذکورہ کتاب میں سرسید مرحوم نے انتہا درجے کا تحقیقی انداز اپنایا ہے وہیں ٹھوس اور عقلی دالائل کا استعمال کر کے ولیم میور کے اعتراضات کا جواب دیا ہے۔یہ کتاب ولیم میور کی کتاب کی صرف ایک جلد کا ہی جواب ہے۔سرسید اس کتاب کے ہر باب کو ایک حج کے برابر سمجھتے تھے،اس کتاب کے اشتہار میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ کتاب زیادہ تر مسلمان نوجوان لڑکوں کے لئے لکھی گئی ہے،جو انگریزی علوم کی تحصیل میں مصروف ہوں۔کتاب کا پہلا باب پڑھنے میں انسان تھکاوٹ محسوس کرتا ہے کیوں کہ ایک تو وہ طویل ہے وہیں اس میں جو تاریخ کے واقعات ہیں جو اکثر کے علم میں نہیں آئے ہوتے وہیں اس کتاب کے آخری باب کو دوسری باب کے بطور شامل ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اُس باب میں آپﷺ کی ولادت سے بارہ سال تک کی زندگی پر بات ہوئی ہے۔میں اُن قارئین کی خدمت میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ جو اس کتاب کو پڑھنا چاہتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ پہلے سیرت رسول ﷺ،انبیا علیہ السلام اور عرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تب جا کے وہ اس کتاب کو سمجھ سکتے ہیں۔کتاب میں ایک بات جو مجھے کھٹکتی رہی وہ یہ کہ اسلام کے بانی کو رسول اللہ ﷺ قرار دیا گیا ہے جو کہ غلط العام بات ہے جب ہم تاریخ اور اسلام پڑھتے ہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہے۔ ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”لیکن حالی جیسے عالم دین کے قلم سے رسول اللہ ﷺ کے لئے ”بانئی اسلام“ کے لفظ کا استعمال حیرت ناک ہے،اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حالی بھی سرسید کی طرح اہل مغرب کی اس فکر سے متاثر تھے کہ حضرت محمد ﷺ اسلام کے بانی ہیں۔“،علاوہ ازیں کتاب میں اور بھی چند باتوں پر بات ہو سکتی ہے لیکن وہ ہم جیسے طالب علم نہیں کر سکتے۔اس سب کے باوجود کتاب املا کی غلطیوں سے پاک ہے وہیں طباعت بھی شاندار ہے کتاب ضخیم ہے،ہارڈ باونڈ میں مجلد ہے تاہم قیمت اس کتاب کی زیادہ اور نا مناسب معلوم ہوتی ہے۔میں اُن افراد کو یہ تجویز دیتا ہوں کہ جو سیرت کے متعلق مشتشرقین کی اور سے جو بے جا اعتراضاعات نبی مہربان ﷺ کی زندگی کے متعلق کیے گئے ہیں کے جواب میں وہ اس کتاب کو پڑھ کر اپنی علمی پیاس بھجا کر حق سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ان شاء اللہ
٭٭٭