روز مرہ کے معاملات پر بات کرنا واعظین کی ذمہ داری ہے



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:. اِکز اقبال

رابطہ :. 7006857283

ہمارے معاشرے میں مولوی حضرات کی بہت عزت ہے اور انہیں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ائمہ مساجد ہمارے معاشرے کا اہم کردار ہیں۔ مولوی حضرات مساجد کے انچارج ہوتے ہیں۔ اور اس پہلو کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مساجد ہمارے معاشرے کے لیے ایک میڈیا سیل Media Cell کا درجہ رکھتی ہیں ۔ایک ایسا میڈیا اور ذریعہ ابلاغ جو اس کے متعلقین تک دین کا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ قوم کی معاشرتی اور اخلاقی تربیت گاہ بھی ہوتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں مساجد کا بہت وسیع کردار ہے جو صوم و صلاۃ سے بڑھ کر ہماری زندگی کے بہت سے زندہ مسائل سے تعلق رکھتاہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انما بعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے ) فرما کر علماء کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیا ہے ۔ اسلام میں آئمہ کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہے۔ مولوی حضرات کو معلم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے ایک اعلیٰ ترین اعزاز عطا کیا ہے۔

اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آئمہ مساجد اور مولوی حضرات قوم کے بہترین مربّی بن جاتے اور معاشرتی،سماجی اور اخلاقی معاملات میں قوم کے زبردست نگران ہوتے اور اُن کی تربیت کرتے ،لیکن بدقسمتی سے معاملہ اسکے بلکل برعکس دکھائی دیتا ہے۔ قابل غور پہلو ہے کہ ہماری ہر گلی میں مسجد ہونے کے باوجود ہم اس مسجد کے آس پاس رہنے والوں تک صحیح طریقے سے دين کاپیغام پہنچانے سے قاصرہیں۔ یہ مولوی حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو وقت کے ساتھ بدلنے والے معاشرتی  سماجی، ثقافتی و اخلاقی مسائل اور ان کے موزوں حل کے متعلق رہنمائی کریں ۔

گنہگار سے گنہگار انسان بھی کم از کم جمعہ کے دن ضرور مولوی کو سننے جاتا ہے، یہ موقع قوم کی تربیت کے لئے سب سے زیادہ مثالی ثابت ہوسکتا تھا، پر بدقسمتی سے مولوی صاحبان کے اذہان میں نہ جانے کہاں سے آکر یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ فقط تاریخی معاملات پر شعلہ بیانی کرنا ہی بہترین خطابت ہوتی ہے۔ ایسے میں جمعے کے خاص دن کے بیان کو صرف مسلکی لڑائی میں گزار دینا یا پھر جمعے کے خطبات نامی کتابوں سے تقاریر رٹ کر بیان کردینا عوام کے ساتھ اور خود اپنے علم کے ساتھ سنگین زیادتی ہے۔

روز مرہ کے بے شمار ایسے معاملات اور مسائل ہیں جو ہمارے تمدن کا براہ راست حصہ ہیں اور انہیں ٹھیک کئے جانے کی اشد ترین ضرورت ہے لیکن مجال ہے جو کوئی ان معاملات پر بات بھی کرے ۔ 

میں کچھ مثالیں بیان کرنا چاہوں گا 

جیسے کہ موٹر سائکل سوار ہیلمٹ اور گاڑیوں میں سوار سیٹ بیلٹ نہیں پہنتے، باوجود متعلقہ اداروں کی جانب سے سختی کے اور بھاری بھرکم جرمانوں کے یہ معاملہ کنٹرول میں نہیں ہے ، سڑک پر چلتے وقت خیال رکھا جائے کہ صحیح سمت سے چلیں اور یہ کہ بچوں اور عمر رسیدہ افراد کی اس معاملے میں مدد کی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عورتوں اور بزرگوں کو سیٹ دی جائے۔ موبائل فون پر مذاق مذاق میں بولے جانے والے جھوٹ کو Normal نا سمجھا جائے بلکہ اس کو گناہ تصّور کیا جائےراستوں پر یا ندی نالوں میں کوڑا پھینکنا اخلاقاً جرم سمجھا جائے، نوجوان نسل میں پائی جانے والی برائیاں جیسے موبائل فونز کا غیر اخلاقی استعمال  منشیات کی طرف رجحان اور وقت کا بے دریغ ضیاع رات کے اندھیرے میں کمرے میں اکیلے میں موبائل کی دنیا کے خرافات سے آگاہ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔

 اگر مولوی صاحبان اپنے جمعے کے خطبے میں خصوصی طور پر ان چھوٹے چھوٹے معاملات کو لیکر عوام کو اپنے مخصوص انداز میں جھاڑ دیں تو بہتری کی یقینی امید کی جاسکتی ہے ۔ میں نے اوپر صرف چند مثالیں دیں، ایسے سینکڑوں معاملات ہیں جن پر جمعہ کے بیان میں مسلسل بات کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کی بات کا اثر لینے والے لوگ معاشرے میں ممتاز دکھائی دیں۔

بات صرف نماز جمعہ کی نہیں ہے،بلکہ روزانہ پانچ مرتبہ تقریباً ہر گلی سے کچھ نہ کچھ لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں،جس میں نو جوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے. تو کیا اس سلسلے میں ہمارے مولوی حضرات کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ان تمام لوگوں کی تعلیم و تربیت کا منظم طریقے سےانتظام کریں ،تاکہ ان تمام نمازیوں کا مسجد آنا جانا ان کے لیے بھی اور اس معاشرے کے لیے بھی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر اگر خلوص اور بھرپور توجہ سے محنت کی جائے تو ان کی ایمانی،اخلاقی،معاشرتی اور تجارتی زندگی میں ایک دینی رنگ چھا سکتا ہے ۔

اخلاقی برائیوں کی طرف نظر کی جائے تو جھوٹ ،فریب، دھوکہ، خیانت، تکبر، ظلم، فحاشی، حسد ، بد گمانی اور غیبت وغیرہ ان میں سے بیشتر عیوب ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔ ان مہلک بیماریوں کے شکار ہرجگہ موجود ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ خیانت کے مرض کے شکارکسی فرد کو ادارے کا رکن یا سربراہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ رشوت کا عادی ملازم لوگوں کی خدمت کرے گا یا ان کا جینا دوبھرکردے گا؟ کیا رشوت دینے والے لوگ خود پر اور قوم پر ظلم نہیں کر رہے ہیں؟ انصاف سے عاری جج صاحب اور جھوٹا وکیل ہمارے کس کام کا؟ والدین کے حقوق سے ناواقف اور بگڑی ہوئی اولاد کیا گل کھلائے گی ؟ فحاشی میں مبتلا نوجوان قوم کو کیا مستقبل فراہم کرے گا ؟ حسد، بد گمانی اور غیبت میں مبتلا لوگ دفاتر کا ماحول کیسا بنائیں گے ؟ تکبر میں مبتلا حکمران اپنی رعایا کے ساتھ کیسا سلوک کرے گا؟ یہ وہ گنتی کی چند اخلاقی برائیاں ہیں جس کا ہمیں قدم قدم پر سامنا کرنا پڑ تاہے۔ لہٰذا جب تک تزکیہ اور تربیت کے عمل میں تیزی لاکر ان کو دور نہ کیا گیا تو یہ برائیاں بڑھتی چلی جائیں گی،اللہ نہ کرے ا گر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمارے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں جینا مشکل ہوجائے گا ۔

 مولوی حضرات کا اہم اور بنیادی فریضہ انسانوں کی ذہن سازی ہوتا ہے۔اگر چہ اس کام کے لیے دوسرے لوگ اور معتدد ادارے بھی اپنی کوششوں میں سرگرداں ہیں  لیکن یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ پورے معاشرتی نظام کا مرکز و محور ایک عالم ہی ہوتا ہے۔ اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی صحیح رہنمائی کریں ۔ اُنکا فرض جہاں دینی مسائل پر عوام کی رہنمائی ہے وہیں معاشرتی معاملات پر ان کی تربیت کی ذمہ داری بھی ہے۔

بدقسمتی سے مولوی صاحبان کا طریقہ کار لوگوں کو نمازی اور اذکار کا پاپند تو بنارہا ہے لیکن یہی نمازی و اذکار کے پاپند لوگ بھی دیگر لوگوں کی طرح سماج میں پنپ رہے ان سنگین برائیوں اور معاملات میں بے ڈھنگے پن کا شکار ہیں۔ 

بہت افسوس کے ساتھ ماننا پڑے گا کہ امت میں تزکیہ کا عمل جب تک  ترجیحی بنیادوں پر جاری  رہا تب تک ہمارے معاشرے کے ہر فرد میں اخلاقی و معاشرتی اقدار کے آثار موجود ہیں. لیکن جب سے ہماری ترجیحات بدل گئیں اور ہم نے نہ اپنی اصلاح کی جانب توجہ کی اور نہ ہی اپنے معاشرے کی  تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج معاشرہ بدترین صورت حال سے دوچار ہے ۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ امت اس تصور دین کو قبول کرنے پر تیار ہی نہیں جو دین اسلام کا اہم تصور ہے۔

عوام کی رہنمائی اور روز مرہ کے معاملات پر بات کرنا مولوی حضرات کی ذمہ داری ہے۔ 

لہٰذا ائمہ کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ امت کی تربیت کریں ، ان کا نمازی کسی ایک طبقے سے تعلق نہیں رکھتا،بلکہ ان کے نمازیوں میں مزدور ،طالب علم ، وزیر، حکمران ، اساتذہ، سرکار ی وغیر سرکاری ملازمین ، افسر ، پولیس ، فوجی ، قانون دان ، سیاست دان ، دکاندار ، تاجر ، اور بے روزگار سب شامل ہیں ۔جب ان کے سامنے قرآن و حدیث کی واضح ہدایات پیش کی جائیں اور ساتھ ساتھ انھیں فکرمند کیا جائے کہ وہ ان ہدایات کو اپنے عملی ماحول میں اپنانے کی کوشش شروع کریں ۔اس طرح وہ ایک صاحب ایمان کا کردار ادا کر سکیں گے اوراپنے قول و فعل میں صداقت و امانت کے ساتھ ایک مثالی گھرانہ ،مثالی معاشرہ اور ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کرسکیں گے، ان شاء اللہ۔

نوٹ: اِکز اقبال شمالی کشمیر کے ایک تدریسی ادارے میں ایڈمنسٹریٹر ہے۔

ای میل: ikkzikbal@gmail.com