اجس بانڈی پورہ کا سفر
- noukeqalam
- 85
- 11 Apr 2024
✍️:. عاصم رسول/سرینگر
سنیچر وار کی دوپہر کو میں اپنے دو دوستوں سے مدرسے میں آپسی تبادلۂ خیال کر کررہا تھا۔ دفعتاً موبائیل کی گھنٹی بجی۔ اللہ اللہ۔۔!! استاد محترم ڈاکٹر شکیل شفائی(Shakeel Shifayi) بندۂ ناچیز کو کال کر رہے ہیں۔ علیک سلیک، خیر و عافیت کے بعد انہون نے مژدہ سنایا کہ اتوار سہہ پہر کو اُن کا پروگرام اجس بانڈی پوری کی جامع مسجد میں ہے۔ اور مجھے مصاحبت کا شرف بخش کر ساتھ آنے کی پیش کش کر دی۔ یقیں مانیں درونِ قلب خوشی کی لہریں اُٹھنے لگیں۔بلا تامل ساتھ چلنے کی حامی بھر لی ۔ اجس بانڈی پورہ کی خوب صورت وادی کا سفر اور استاد محترم کی معیت یہ تو انگریزی مقولہicing on the cake والی بات ہو گئی۔
سنیچر کی رات چوں کہ ۲۷/ ویں شب تھی۔ رات کو قیام و شب بیداری (اللہ پاک میری ناقص عبادات اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین) کی وجہ زبردست نقاہت محسوس ہورہی تھی بایں ہمہ نمازِ فجر کے بعد اس قدر نیند طاری ہوئی کہ ساڑھے گیارہ بجے تک آنکھ نہیں کھلی۔ موبائیل کا سیوچ آن کیا، موبائیل کی سکرین پر میرے محترم ڈاکٹر امتیاز قیوم (Imtiyaz Sahar) کی مسیج ڈسپلے ہورہی تھی کہ وہ بھی ہم سفر ہیں۔ اور از راہ کرم مجھے اپنی گاڑی میں فتح کدل پر اٹھائیں گے۔ عید خریداری کے پیش نظر ٹریفک کی آوا جاہی بہت زیادہ تھی۔ جگہ جگہ ٹریفک ازدھام کے مناظر دکھ رہے تھے۔ لشتم پشتم ہم استاد محترم کے دولت خانے پارمپورہ پہنچے۔ استاد محترم اور ان کے لخت جگر ابو بکر بالکل تیار تھے۔ اور اس طرح چار نفوس پر مشتمل یہ قافلہ بطریقِ بانڈی پورہ چل پڑا۔
سفر طویل ہو، استاد محترم کی معیت ہو اور متنوع موضوعات کی زنبیل نہ کھلے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ سچ پوچھیں ان اسفار میں میرے لیے زیادہ وجۂ جاذبیت ہی دورانِ سفر کی گفت گو ہوتی ہے۔ اللہ اکبر ! استاد محترم نے معلومات کے دریا بہانا شروع کردیے۔ ہر موضوع پر اتنی وقیع معلومات پیش کر رہے تھے کہ تشنگی کافور ہوجاتی۔ فرمانے لگے کہ استمداد، استغاثہ اور وسیلہ پر مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان اختلاف پائے جاتے ہیں۔ میرے نزدیک اس مسئلہ میں زیادہ احوط دیوبندی مکتبِ فکر کی راے ہے۔ مانگنا صرف اللہ کو جائز ہے پھر اللہ پاک کس کے ذریعے حاجت روائی کرے اُس کی مشیت پر منحصر ہے یا بہ راہ راست مدد کرنا بھی اس کی شان سے کچھ مستبعد نہیں۔ اس کی شان ادعونی استجب لکم کی ہے۔ بہر حال علمی، دینی، ادبی، فکری اور عصری عنوانات پر استاد محترم کے دہان سے نکلے اللؤلؤ والمرجان ہم اپنے دامن میں سمیٹ رہے تھے اور پتا بھی نہیں چلا کہ کب گاڑی اجس کی خوب صورت وادی میں داخل ہوئی۔ سرسبز پہاڑ اور کھیت کھلیان ہمارے ذوقِ جمال کو جلا بخش رہے تھے۔ تاریخی جھیلِ ولرکی سکڑتی صورت حال پر شدید قلق ہوا۔
اجس پُل پر برادر ابرار لون صاحب ہمارے لیے چشم بہ راہ تھے۔ ان سے مصافحہ و معانقہ کیا۔ انہوں نے پُل سے دائیں جانب مڑنے کا اشارہ کیا۔ سڑک قدرے چڑھائی دار تھی۔ اُتار چڑھاؤ زیادہ تھا۔ کچھ ہی فاصلے پر جامع مسجد دکھائی دی جس میں تعمیر کا تھوڑا سا کام ابھی باقی ہے۔ عصر نماز میں ابھی آدھا گھنٹہ کا وقت تھا۔ لہٰذا ہم ابرار صاحب کے ساتھی جاوید صاحب کے گھر میں قدم رنجہ ہوئے۔ اس دوران مسجد سے اذان ہوئی۔ اور ہم نماز پڑھنے مسجد چلے گئے۔
نماز عصر کے فوراً بعد اجتماع کی کارروائی شروع ہوئی۔ لوگوں کی بڑی تعداد ڈاکٹر صاحب کا خطاب سننے کے لیے تشریف فرما تھے۔ اتنی وسیع جامع لوگوں سے کھچا کھچ بھری تھی۔ معلوم ہوا کہ استاد محترم نے قبل از ایں چند خطابات یہاں دیے ہیں۔ اجس کی عوام پر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے بیان کا اثر بدیہی طور محسوس ہو رہا تھا۔ استاد محترم نے تقویٰ کے عنوان پر اثر انگیز تقریر کی۔ تقویٰ کی انوکھی توضیحات سے لوگ مستفید ہوئے۔ استاد محترم نے شکر و سپاس اور توفیقِ ایزدی کی تلقین کرتے ہوئے جگر مراد آبادی کا عمدہ شعر کہا:
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
آخر پر استاد محترم نے رقت آمیز دعا فرمائی اور نماز مغرب کے ساتھ ہی مجلس برخاست ہوئی۔
میزبان حضرات نے پہلے ہی طعام پر اصرار کیا تھا۔ لہٰذا بہت دیر ہونے کے باوصف انکار کرنا مناسب نہیں لگا۔ اللہ پاک اہلِ خانہ کو خیر و برکت سے نوازے انہوں نے پُر تکلف دعوت سے ہماری تواضع کی۔ ابرار صاحب اور ان کے ساتھی علاقے میں دعوت و تربیت کے حوالے سے بہت متحرک ہیں اور محنت شاقہ سے انہوں ایک فکری حلقہ تشکیل دیا ہے۔بہر حال صاحبانِ خانہ سے اجازت لے کر ہم رخصت ہوئے۔
گاڑی میں پھر آپسی تبادلۂ خیال کا دور شروع ہوا۔ ادب کے موضوع پر ذہن کشا معلومات حاصل ہوئیں۔ ڈاکٹر امتیاز صاحب جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ، نہایت ذہین و فطین ہیں بل کہ حد درجہ منکسر المزاج اور متواضع شخصیت کے مالک ہیں۔ان کی شریفانہ ادائیں میرا دامنِ دل کھینچتی ہیں۔ ان سے قلبی محبت و الفت ہے۔ ان کا اعلیٰ ظرف و کردار دیکھ کر واللہ میں عرقِ ندامت میں ڈوب جاتا ہوں۔ وہ خوش الحان مقرر ہونے کے ساتھ بہترین شاعر بھی ہیں۔ انہوں نے پر سوز آواز میں استاد محترم کی لکھی ایک پرانی نعت سنائی۔ استاد محترم بھی مستعجب ہوئے کہ یہ نعت میرے قلم سے کب نکلی ہے۔؟
آسمان نے مکمل تاریکی کی چادر تان لی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی سرعت سے سرینگر کی حدود میں داخل ہوئی۔ استاد محترم اپنے پسرِ دل بند کے ساتھ پارمپورہ میں اترے۔ اور ڈاکٹر امتیاز صاحب کی ذرہ نوازی اور احسان مندی کہ مجھے فتح کدل میں چھوڑا جو کہ تکلف کا باعث تھا۔ بہر کیف استاد محترم اور ڈاکٹر امتیاز کے ہم راہ ایک اور یادگار اور دل خوش کن سفر اختتام کو پہنچا۔ اس امید کے ساتھ کہ:
یار زندہ صحبت باقی!