فلسطینیوں کا صبر اور مغربی دنیا



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍🏼:. اِکز اقبال

 سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں فلسطین کی یہ چھوٹی سی بچی کہہ رہی تھی۔ کہ ہمیں آپ کے امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لیے ہمارے اللہ میاں ہی کافی ہے ۔ ہم بڑے ہونگے،ہمارے بچے ہونگے اور پھر وہ لڑ کر آزادی حاصل کر لیں گے،اِنشاء اللہ ۔

فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت جاری ہے۔ پچھلے تقریباً چھ ماہ سے جاری اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی وحشیانہ کارروائیوں میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطین کے محکمہ صحت اور یونائیٹڈ نیشنز کی رپورٹس کے مطابق اب تک تیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں معصوم بچے بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں ۔ ستر ہزار سے زائد زخمی۔ تقریباً بیس لاکھ کے قریب اپنے گھروں سے بے دخل کردیئے گئے ہیں ۔ 65فیصد کے قریب رہائشی و غیر رہائشی عمارتیں تباہ کر دی گئی ہے ۔

فلسطین کے مسلمانوں پر کیے جا رہے اس ظلم و بربریت اور اس کے ردِ عمل میں اُن کا صبر و استقامت نے مغربی دنیا کی سوچ کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ مغربی دنیا کے لاکھوں افراد  جن میں اچھی خاصی تعداد نوجوانوں کی ہے،میں فلسطین کی اصل تاریخ اور اسلام اور قرآن کی طرف دلچپسی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ 

حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوا ۔ جس میں ایک فلسطینی ماں زمین پر بیٹھی تھی۔ اُس نے سفید کفن میں ملبوس اپنے معصوم بچے کی لاش کو سینے سے لگایا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ رہی تھی ۔ اور وہ " الحمدللہ " کہہ رہی تھی۔ وہ اتنی بڑی مصیبت کے باوجود اللہ تعالٰی کا شکر ادا کر رہی تھی۔ اس وائرل ویڈیو نے لاکھوں سوشل میڈیا صارفین کے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اور بہت سوؤں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دی۔ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایسی ہزاروں ویڈیوز دیکھی جن میں فلسطین کے مسلمان مصیبت کی اس گھڑی میں بھی اللہ میاں پر کامل یقین اور توکل رکھتے ہیں۔ بچے اور بوڑھے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین کی داستان پیش کر رہے ہیں۔ وہی فلسطین کی مائیں اپنے بچوں کی لاشوں کو اٹھائے صبر و استقامت کا پہاڑ بنی ہوئی ہے۔ 

چھ ماہ سے زیادہ ظلم و بربریت کے خلاف صبر و استقامت کی یہ کہانیاں نوجوانوں میں اسلام کی طرف دلچپسی کا باعث بن گئی۔ اور بہت سارے مسلمان ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ایبی حفیظ  ایک 25/ سالہ عیسائی نے فلسطین کے ویڈیوز دیکھ کر قرآن پڑھنا شروع کیا اور اس کی سوچ ہمیشہ کے لئے تبدیل ہوگئی اور وہ مسلمان ہوگئی۔ مغربی دنیا میں ایبی کی طرح لاکھوں افراد ہیں، خاص طور پر نوجوان، جو بچپن میں بتائے گئے دقیانوسی خیالات سے ہٹ کر اسلام کو جاننے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ایک نوجوان امریکی مصنف خاتون میگن رائس، فلسطینی عوام سے متاثر ہو کر، اسلام کے بارے میں اپنی تحقیق کو آن لائن شیئر کرنے والوں میں شامل ھیں۔ انہوں نے بتایا کہ قرآن مجید کا نسخہ خریدنے کے بعد جب انہوں نے اسے پڑنا شروع کیا تو ان کی سوچ میں تبدیلی آنے لگی۔ چند دنوں بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب وہ فلسطین حامی مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور اسلاموفوبیا کے متعلق اپنے سوشل میڈیا پر اکثر و بیشتر ویڈیوز شیئر کرتی رہتی ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا کے میلبورن شہر میں تیس سے زیادہ عورتوں نے فلسطینی مسلمانوں کے صبر و استقامت کو دیکھ کر ایک ساتھ اسلام قبول کیا ۔ 

مغربی دنیا میں اسلام کی طرف دلچپسی کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مین سٹریم میڈیا کے پھیلائے انتشار کے باوجود لوگ صحیح اسلامی تعلیمات کو سمجھنے میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ کئی مشہور اداکار اور سماجی کارکن، جنہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ فالو کرتے ہے نے یا تو اسلام قبول کیا یہ پھر قرآن مجید اور اسلام کو سمجھنے کی دلچسپی کا اظہار کیا ۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہر امراض چشم پروفیسر ہنری کلاسن اور سابق ہسپانوی فٹ بال کھلاڑی جوز ایگنیشیو نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہالی ووڈ اسٹار ول اسمتھ نے بھی قرآن پڑھنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ 

مغربی دنیا کا اسلام کی طرف دلچپسی کا رجحان ایک گہری آگاہی ہے۔ جو کہ فلسطینی مسلمانون کا مصیبت میں اپنے خدا کو پکارنے کا نتیجہ ہیں۔ مصیبت ، مشکلات اور پریشانیوں میں بھی ان کا ایمان کمزور نہیں ہوا ہے۔ اُن کا صبر و استقامت دنیا کے لیے ایک مثال ہے ۔ یہ ردِ عمل اُن اسلام دشمن عناصر کے لیے بھی ایک دھبہ ہیں۔ جو اسلاموفوبیا کی آڑ میں اسلام کا غلط پروپیگنڈا کرتے پھر رہے ہیں ۔ 

ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں سماجی اور طرز عمل سائنس کی ڈاکٹر وینیسا ورون بتاتی ہیں کہ "ایک مرتبہ جب لوگ اسلام کے بارے میں جاننا شروع کر دیتے ہیں، تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ عالمی میڈیا میں اسلام کا جو منفی کوریج کیا جاتا ہے، وہ الگ ، اور حقیقت میں اسلام یکسر مختلف ہے۔ " وہ اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔ مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ انکا یہی پروپیگنڈا لوگوں کو اصل اسلام سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔ 

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہے: 

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿۵۴﴾

" اور انہوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے ۔ " ( ترجمہ القرآن ؛ آل عمران 03: 54 ) 

اُن کی جو کوششیں اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے میں لگی ہوئی تھی۔ وہ ساری کوششیں دنیا کے سامنے اسلام کی خوبصورتی اور اس کا اصل رنگ لانے میں کارگر ثابت ہوئی۔ وہ مسلمانوں کو تو شہید کرسکتے ہیں مگر وہ کبھی اسلام کی نفرت اُن کے دلوں میں نہیں ڈال سکتے۔ کیوں کہ اللہ میاں کی چال اُنکی چالوں سے زیادہ بہترین ہے۔ 

آج جبکہ ساری دنیا فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں پر ہورہے ظلم و بربریت کو دیکھ رہی ہے۔ اُنکی صبر و استقامت کی مثالیں لوگوں کی زندگی میں گہری تبدیلی لا رہی ہیں۔ دنیائے عالم پر یہ بات آشکارا ہوچکی ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی تصویر کشی کی جاتی ہے، چاہے وہ مثبت ہو یا منفی، لوگ اس بارے میں متجسس ہو جاتے ہیں کہ مسلمان کون ہیں اور اسلام کیا ہے۔ اور پھر اس مذہب کو جاننے کی لگن انہیں دائرۂ اسلام میں داخل کردیتی ہے۔ 

اے میرے پروردگار رب کائنات میرے مالک فلسطین کے مسلمانوں  مظلوم عورتوں معصوم بچوں اور مسجد اقصی کی تو اپنے کرم سے حفاظت فرما. انہیں اور ہمت اور استقامت عطا فرما ۔ آمین۔

نوٹ: اِکز اقبال مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا میں ایڈمنسٹریٹر ہے۔  

رابطہ: 7006857283