نییٹ 2024 کے نتائج اور نظام تعلیم کی فرسودگی



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:. اِکز اقبال /رابطہ : 7006857283

بچپن میں میری امی جان کہا کرتی تھی کہ دنیا کے کسی بھی شعبے میں فراڈ ممکن ہے ۔ مگر تعلیم کا شعبہ اس سب سے مبرا ہے۔ مگر یقین مانیں آج اگر کسی شعبے میں سب سے زیادہ مادیت گس چکی ہیں اور فراڈ اور دلالی ہورہی ہیں تو وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی میں ان کے نظام تعلیم کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ربط و ضبط کے لیے تعلیم کا ہونا لازمی ہے ۔ ہمارے بچے ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہیں ۔ اور انہیں بہترین تعلیمی زیور سے آراستہ کرانا ہمارا فرض بھی ہے اور ہماری ترجیحات میں بھی شامل ہونا چاہیے ۔

مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اگر کسی شعبے میں سب سے زیادہ  دھوکہ ہورہا ہیں تو وہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ اور ان کے مستقبل کے ساتھ۔

اس سال یعنی 2024 کے نیٹ امتحان کے نتائج نے تعلیم کے اس مقدس شعبے کو لوگوں کے سامنے ایک داغ دار شعبہ بنا کے رکھ دیا۔  ملک کا تعلیمی نظام جو پہلے سے ہی ابتری کا شکار تھا اب اور اندھیری کی طرف جاتا ہوا دکھ رہا ہیں ۔

نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (NTA) جو نیٹ (NEET) کے امتحانات کراتی ہے۔ اس سال کے نیٹ کے امتحانات 05 مئی 2024 کو پورے ملک میں تقریباً 4750 امتحانی مراکز میں کرائے گئے۔ امتحانات کے نتائج 14 جون 2024 کو آنے تھے۔ مگر اس بار کچھ عجیب ہوا۔ این ٹی اے نے نتائج 14 جون کے بجائے 04 جون 2024 کو ہی نکالے۔ ٹھیک اسی دِن جس دِن ملک بھر میں منعقد کیے گئے لوک سبھا انتخابات کے بھی  نتائج آنے والے تھے۔ نیٹ کے نتائج کو تاریخ سے بیشتر نکالنا سب کے لیے حیران کن تھا۔

صرف اتنا ہی نہیں۔ اس بار کے نیٹ امتحان کے نتائج میں بہت ساری چیزیں حیران کردینے والی ہیں۔ جو لوگوں کے ذہنوں میں بہت سارے شقوق و شبہات پیدا کردیتی ہے۔ 

ایک حیران کن انکشاف یہ بھی ہے کہ اس سال کے نیٹ کے نتائج میں 67 طلباء نے سو فیصد کامل 720 نمبر حاصل کیے جو کہ NTA کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔  2020 اور 2023 کے درمیان، صرف سات امیدوار NEET میں مکمل نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ کامل اسکورز میں اس اچانک اضافے نے، خاص طور پر ایک ہی امتحانی مرکز سے چھ اُمیدوار، سب کے ذہنوں میں شقوق پیدا کر رہا ہے۔

اس شک کا مرکز ہریانہ کے جھجھر میں ہردیال پبلک اسکول ہے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اکیلے اس سنٹر کے چھ طلباء نے 720 میں سے 720 نمبر حاصل کیے ہیں۔ یہ بے ضابطگی سوال پیدا کرتی ہے: پرفیکٹ سکور میں اتنا ڈرامائی اضافہ فراڈ کیے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟

اس بے ضابطگی کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ وہ طلباء جنہوں نے ایک باوقار میڈیکل کالج میں جگہ حاصل کرنے کے لیے برسوں سے انتھک  محنت مطالعہ کوششیں اور اپنا وقت وقف کیا،  ان کے خواب چکنا چور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے والدین نے کتابوں اور کوچنگ میں بہت زیادہ پیسے خرچ کیے ہوتے ہیں اور اب وہ جذباتی طور مجروح ہیں ۔ مالی نقصان سے ذہنی بیمار اور اپنے بچوں کا مستقبل دھندلا دکھائی دینے سے زیادہ پریشان ہیں ۔ اس سب کی وجہ سے تعلیمی نظام میں اعتماد کو بری طرح مجروح کیا گیا ہے۔ 

ایسے میں لگ رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، بدعنوانی اور بے ضابتگی کے الزامات  کے بعد  طلباء اور والدین کے ذہنوں میں یہ بات گونجنے لگی کہ کچھ تو ہے،جس کی پردہ داری  ہے۔  بچوں نے انتھک محنت کی ہوتی ہے۔ ان کی امیدوں اور امنگوں کو پامال کیا گیا ہے۔ کیوں کہ بہر حال  بات بچوں کے مستقبل کی ہے۔ بات ملک کے مستقبل کی ہے۔ بات بگڑتی صورتحال کی ہے۔

لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے دن نیٹ کے نتائج کا اعلان کرنے نے شکوک و شبہات کو مزید ہوا دی ہے۔ اس دِن جب ساری قوم کی توجہ انتخابی نتائج پر تھی  ایسے میں نیٹ کے نتائج کا اعلان کرنا اسٹریٹجک سازش معلوم ہوتی ہے۔

اس طرح کی بے ضابطگیوں کی وجہ سے امتحانی عمل میں شفافیت اور منصفانہ پن پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ NTA کی جانب سے 1567 طلباء کو گریس نمبر دینے میں غلطی کا اعتراف اور دوبارہ امتحان کی پیشکش نے افراتفری اور الجھن میں مزید اضافہ کیا۔ ایسے میں فراڈ زیادہ گہری دکھائی دے رہی ہیں ۔

اس اسکینڈل نے ملک کے تعلیمی نظام میں واضح خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ اس طرح کی دھوکہ دہی کبھی نہ دہرائی جائے۔ ایک منصفانہ حل تلاش کرنے میں سپریم کورٹ کی مداخلت بہت ضروری ہے جو امتحانی عمل میں اعتماد بحال کرے۔

موجودہ صورتحال "تعلیم دلالی" سے کم نہیں ہے - ایک اصطلاح جو تعلیم کے شعبے میں استحصال اور بدعنوانی کی نشاندہی کرتی ہے۔ لاتعداد خواہشمند ڈاکٹروں کا مستقبل ایک تاریک سایہ ڈالتے ہوئے توازن میں لٹکا ہوا ہے۔

نیٹ 2024 کے نتائج کی ناکامی نے ہندوستانی تعلیمی نظام پر ایک انمٹ داغ چھوڑ دیا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام کئی سالوں سے بے ضابطگیوں کا شکار ہے۔ خاص طور پر امتحانی نظام انصاف اور شفافیت سے دور دکھائی دے رہا ہے۔ امتحانی نظام کو جلد از جلد پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ 

ملک میں تعلیمی نظام ناقص تدریسی عملے سے لے کر ناقص امتحانی نظام تک کے کئی مسائل سے دوچار ہیں۔۔ ایسے ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے قوم کے نوجوان اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور ان کا مستقبل داؤ پر ہیں۔  ضرورت ہے تعلیمی اور امتحانی نظام میں سدھار لانے کی۔ تاکہ ہر محنت کرنے والے بچوں کو اس کا حق ملے اور پھر وہ قوم و ملک کی ترقی کا ضامن بنے۔

نوٹ : اِکز اکبال مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں ایڈمنسٹریٹر ہے۔ 

ایمیل : ikkzikbal@gmail.com