کیا امت مردہ ہے؟



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:. واحد بشیر 

یہ امت کتنی مجبور و مقہور و محکوم ہے کہ بس دعا سے آگے کوئی حل اور ہتھیار اس امت کو سوجھتا ہی نہیں ہے۔ کیا دعا سے آگے کوئی صورت نہیں ہے جو ہمارے درد کا مداوا کرسکتی ہے؟

اس امت کی بے بسی دیکھنی ہو تو آج کا خطبہ حج سن لیں۔

خطبہ حج بہرحال ایک نمائندہ خطبہ ہوتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر کے مسلمان میدان عرفات میں جمع ہو جاتے ہیں اور مسجد الحرام کے امام و خطیب اس خطبے کی ذمہ داری انجام دیتے ہیں۔

اس سال کے خطبے میں بھی عازمین حج اور ٹیکنالوجی کی وساطت سے دنیا بھر کے مسلمانوں نے بہت اچھے نصائح اور بہترین ہدایات پر مشتمل وعظ سماعت فرمایا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے کہ وہ جب بھی مسلمانوں سے مخاطب ہوتے تھے تو ان مسائل کی طرف توجہ دلاتے تھے جو مسلمانوں کو درپیش ہوتے تھے۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے امت کے "برننگ ایشوز" یا فوری توجہ کے طالب مسائل کی طرف توجہ دلاتے تھے۔

اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہادی اعظم ہونے کے ناطے امت کی رہنمائی فرماتے تھے، اور امت کو عمل کی راہ دکھاتے تھے۔

جب صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ "معاہدے" کی وجہ سے بہت مایوس تھے اور قربانی کے ضمن میں اس مایوسی کی ہی وجہ سے ان سنی کر دیتے ہیں، تو اس وقت ام المؤمنین حضرت ام سلمہ نے بہترین تجویز پیش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی، اور صحابہ کرام بھی اس کے بعد عمل کرتے ہیں۔

گویا وعظ و نصیحت و تعلیم ہی نہیں بلکہ عملی تدبیر اور رہنمائی زیادہ اہم چیز ہے۔

اس وقت امت مسلمہ کا برننگ ایشوز میں سے اہم ترین مسئلہ قبلہ اول کے مسلمانوں کی مظلومیت اور ارض مقدس پر قائم ناجائز قبضہ ہے۔

اور یہ امت کتنی بے بس و لاچار ہے۔ ملکوں کے ملک ہمارے ہیں، وسائل کی بہتات ہے، فوجوں کی فوجیں ہماری ہیں۔ لیکن ہم بس دعا کرسکتے ہیں۔ ہم امت کے گہرے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے، زخموں کے بھرنے کی دعا کرتے ہیں۔ 

بھلا زخم دعا سے بھرتے ہیں؟

بھلا مظلومیت پند و نصائح سے مٹ جاتی ہے؟

بھلا اندھیرے وعظ و نصیحت سے چھٹ جاتے ہیں؟

اگر امت نے اپنی دنیا تبدیل کرنی ہے تو تدبیر ترجیح اول ہونی چاہیئے اور دعا تدبیر کو اختیار کرنے کے بعد کرنے کی چیز ہے۔

پسِ تحریر:

خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں

ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب

کہ سِکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!