وادی ٔنمبلن (پلوامہ) کی سیر



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:... عاصم رسول/سرینگر 

امسال موسم گرما نے غیرمعمولی طور اپنا کڑا رخ دکھایا۔ ہر نئے دن کے ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گرم لُو کے تھپیڑے کشمیریوں کو نیم جان بنا رہے ہیں۔ ٹھنڈے پانی سے مکرر نہانے کے بعد بھی زیادہ راحت محسوس نہیں ہورہی۔ آفتاب کی تمازت سے پورا بدن پسینے سے شرابور ہورہا ہے، جس کے سبب کپڑے سرعت سے تبدیل کرنے پڑرہے ہیں۔ 35 ڈگری درجہ حرارت 50 ڈگری محسوس ہورہا ہے گویا فلک سے آگ و آہن کی برسات ہورہی ہے۔ اور  اہلِ کشمیر اس شدید گرمی سے نڈھال ہوگئے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک ہی چیز کی طرف توجہ منعطف ہورہی ہے۔ وہ ہے کسی صحت افزاء مقام کی جانب سفر- 

 شدتِ گرمی سے یہاں ہر سرگرمی کا متاثر ہونا قدرتی امر ہے بایں ہمہ اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کو معمول کے مطابق انجام دینا کارِ دارد والا معاملہ بنتا جارہا ہے۔پڑھائی کے لیے ضروری ہے کہ موسم معتدل رہے۔ نامساعد موسمی حالات سے بچوں کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا۔ لہٰذا اسکولوں کی انتظامیہ بچوں کی ذہنی و فکری نشوونما کے لیے مختلف غیر تدریسی(extra      curricular) سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے جو بچوں میں موسم کی سختی سے پڑرہے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ سیر و تفریح کے پروگرامات اس ضمن میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔

آمدم بر سر مطلب: ہمارے اسکول کے پرنسپل صاحب محمد یونس بٹ نے راقم کو ایک دودن قبل ہی مطلع کردیا تھا کہ بچوں کے ایکسکرشن کا پروگرام سنیچروار۲۷ جولائی کو طے پایا ہے۔مقررہ دن خلافِ معمول موسم سہانا تھا۔ ہوا میں قدرے خنکی تھی جو مشام جاں کو معطر کررہی تھی۔آسمان پر بادل کے ٹکڑے تیرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ بہرحال اساتذہ و تلامذہ مازدا  گاڑی میں سوار ہوکر جانب منزل رواں دواں ہوئے۔ سب کو آرام دہ سیٹیں میسر آئیں۔ اس بار پکنک کے لیے ایک غیر معروف جگہ ”نمبلن“ کا انتخاب ہوا تھا۔ اس جگہ کا تعارف ہمیں مشہور Youtube Blogger”Imad Clicks“ سے ہوا تھا۔ جس نے اس جگہ کے متعلق ایک بہترین ویڈیو بنائی تھی۔ اور پرنسپل صاحب کچھ دن قبل چند ساتھیوں کے ہمراہ اس جگہ کو دیکھ چکے تھے۔ہم لوگ واتھورہ کے راستے چاڑورہ پہنچے اور پھر پکھرپورہ سے ہوتے ہوئے چرار شریف پہنچے۔ چرار شریف سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر گاڑی دائیں جانب نشیبی راستہ سے چلتے ہوئے سیدھے نمبلن میں داخل ہوئی۔راستہ تقریباً ہموار تھا لہٰذا کوئی زیادہ زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔وہاں پہنچ کر گاڑی سے ضروری سامان اُتارا اور پاپیادہ چل کر ایک جگہ استراحت فرمائی جو سطح مرتفع کی مثیل سے تھی۔ نشیب میں ندی بہہ رہی تھی ۔ اس دوران میٹھی چائے کا تقاضا زوروں سے محسوس ہورہا تھا۔ یونس سر نے عمدہ coffee بنا کر ہماری طبعیت کو آسودگی فراہم کی۔ یونس صاحب میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے کہ چائے بنانے سے لیکر پکوان تیار کرنے اور عمدہ چٹنیاں بنانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور اس تناظر میں پرنسپل ہونے کے بناوٹی عُجب کو آڑے نہیں آنے دیتے۔ہمارے ساتھ  خواتین اساتذہ (جونہایت قابل، ملنسار، حلیم الطبع اور شریف النفس ہیں) نے سیرو تفریح کے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں اپنا بھرپور رول ادا کیا۔ انہوں نے بچوں کی نگرانی اور نظم و ضبط کو قائم رکھنے میں ادنیٰ غفلت کا ارتکاب نہیں کیا۔

قریب ایک(1:00)بجے ہم نے کھانا تناول کیا۔ متنوع قسم کے پکوان دسترخوان پر سجائے گئے۔ تمام پکوان بہت لذید تھے ۔ امر واقعہ ہے میں انگلیاں چاٹنے لگا۔کھانے کے معاً بعد راقم، یونس سر ، ایک دو استانیاں اور بچے وادی نمبلن کو دیکھنے پیدل محوِ سفر ہوئے۔ نمبلن گھنے جنگلات ، سرسبز پہاڑی سلسلہ اور وسیع میدان پر مشتمل زر خیز وادی ہے۔ وسطِ میدان میں بے شمار لکڑی کے جھونپڑے نظر آتے ہیں۔ چند مساجد، جو تعمیر کے لحاظ سے نہایت سادہ تھیں، دیکھ کر درونِ دل مسرت کی لہردوڑ گئی۔ ایک جگہ نوجوانوں کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کیوں کہ اس دور افتادہ علاقے میں اس معیار کی کرکٹ واقعی تعجب انگیز منظر تھا۔ بہرحال ہم قدرت کی نیرنگیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔یہ وادی ایک ایسے پہاڑ پر منتج ہوتی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے مقراض(Axe) سے اسے کاٹا گیا ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں نہر بہہ رہی ہے جس میں بچوں نے ڈبکیاں بھی لگائیں اور خوب صورت تصوریں بھی لیں۔ ہم نے واپسی کی راہ لی ۔ یہ پاپیادہ سفر پُرلطف ثابت ہوا۔ درحقیقت بچوں کو خالقِ کائنات کی صناعی سے واقف کروانا اور تخلیق کے ذریعے اللہ رب العالمین کی ذات ستودہ صفات کی پہچان کروانا تعلیم کا اصل جوہر ہے۔ بدقسمتی سے آج کی تعلیم میں یہ عنصر مفقود ہوچکا ہے۔ آج ہم ظاہرپرستی اور ثانوی چیزوں پر سارا زور صرف کررہے ہیں لیکن مقصد اور روح کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ 

دن کے چار بج چکے تھے ۔ نمبلن سے واپسی کاوقت آن پہنچا تھا۔یونس سر نے پہاڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پہاڑ پر چڑھ کر ہم جلد گاڑی تک پہنچ جائیں گے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ نہایت پُر صعوبت راستہ ثابت ہوگا۔مختصر راستہ کے لالچ میں ہم جلدی سے کوہِ پیمائی کرنے لگے۔لیکن پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کرہمیں معلوم ہوا کہ ہم راہ گم گشتہ ہیں۔ گاڑی اور راستے کا نام و نشان نہیں۔ پہاڑ چڑھتے ہوئے استاتذہ اور بچوں کی سانسیں پھولنے لگیں۔ اعصاب ڈھیلے پڑگئے۔جسم تکان سے چور ہوگئے۔ خدا خدا کرکے ہم کسی طرح افتاں و خیزاں شاہراہ ِ عام پر قدم رنجہ ہوئے ۔ابھی ہم خود کو سنبھالنے ہی لگے تھے کہ پتہ چلا ایک بچے کا قیمتی موبائل بہاڑ پر کہیں گم ہوگیا ہے۔میری زبان سے بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون نکل گیا کیوں کہ گھاس سے بھرے  کوہستان میں موبائیل کا مل جانا ناممکنات میں سے تھا اور میرا خدشہ صحیح ثابت ہوا۔ یونس صاحب کے ہمراہ اگرچہ کچھ بچے موبائیل ڈھونڈنے نکل پڑے لیکن سب بے سود۔ ہم متعلقہ بچے کوصرف دلاسا ہی دے سکتے تھے۔

گاڑی تیزی سے نمبلن سے نکل کر چرار شریف پہنچ گئی۔ علمدار کشمیر شیخ نور الدین نورانیؒ کی زیارت گاہ پر عجیب روحانی کیفیات طاری ہوجاتی ہیں۔ توحید و سنت کے پیغام کوپہنچانے کے لیے اس بزرگ کی خدمات ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔ ان کا کشمیری کلام آج بھی مردہ دلوں کو زندہ کرنے کی تاثیر رکھتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چرار شریف محض سیر سپاٹے ، خرید و فروخت اور پراٹے کھانے کے لیے ہی نہ جایا جائے بلکہ علمدارکشمیر ؒ کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تڑپ دل میں پیدا کی جائے ۔وہاں سے نکل کر ہم نے نمکین چائے چرار شریف کی پارک میں پی۔اونچے میناروں سے مغرب کی اذان بلند ہورہی تھی ۔ ہم نے مسجد شریف میں نماز ادا کی ۔ نماز کے فوراً بعد گاڑی میں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ آسمان نے مکمل طور پر سیاہ چادر تان لی تھی۔ گاڑی فرّاٹے بھرتی سرینگر کی حدود میں داخل ہوئی۔ تمام ہم سفر بہ سلامت اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ اس یاد گار سفر کی مسرت اپنی جگہ لیکن میری سوچ کا پنچھی کسی اور ہی وادی میں محوِ پرواز تھا 

باغ میں لگتا نہیں صحراءسے گھبراتا ہے دل

اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم

(نظیر اکبر آبادی)