جماعت اسلامی جموں وکشمیر اور اسمبلی انتخاب



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:.عمر خضر /ہر ل ہندواڑہ 

جماعتِ اسلامی جموں وکشمیر نے سیاست میں 1987 میں جماعت کے ساتھ کی گئی دھاندلی کے بعد پہلی بار انٹری مار دی ہے۔ اس دھاندلی کی وجہ سے جماعت نے تنگ آکر الیکشن سے منہ موڑ لیا تھاجماعت کے جیتے ہوئے امیدواروں کو ہارا ہوا پیش کیا گیا جس کے سبب جماعت نے مکمل طور انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ جہاں اب اُن پر بہت سارے الزامات لگ رہے ہیں وہیں جماعت کے سابقہ جنرل سیکریٹری اور حالیہ پینل کے ممبرغلام قادر لون نے اس بات کی تصدیق کی کہ اگر جماعت سے پابندی ہٹتی ہے تو وہ الیکشن میں پارٹی کی حیثیت سے الیکشن لڑتے  اب چونکہ جماعت پر مرکز نے پابندی کو برقرار رکھا ہے اس سلسلے میں جماعت نے فیصلہ لیا ہے کہ جو کوئی ہمارے نظریہ و فکر سے دلچسپی رکھتا ہو ہم انتخاب میں اس کے حق میں ووٹ دیں گے.  اب جب جماعت 37 سال کے بعد الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہے ، کیا واقعی اس الیکشن میں اُن کا کوئی رول رہے گا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں جماعت کی تاریخ  پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ 

جہاں مذہب اور سیاست کو جداگانہ سمجھا جاتا تھا وہیں جماعت اسلامی نے پہلے دن سے سیاست کو مذہب کا جز مانا۔ اسی نظریہ پر کشمیر میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح لا تعداد لوگ متاثر ہوئے اور بنیاد پڑتے ہی سیاست کی سرگرمیوں کے ساتھ وابستہ ہو گیے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ جماعت پابندی ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لے رہی ہے بلکہ 1975 میں بھی آزاد امیدوار کھڑے کر چکی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جماعت الیکشن میں کھری نہیں اُتر سکتی اُس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال سے جماعت کی کوئی نقل و حرکت نہیں ہے اور اس پر مزید پانچ سال کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن جماعت کی اپنی ایک تاریخ اور کارنامے ہیں جس کی بنا پر جماعت پانسہ پلٹ سکتی ہے۔ 

2019 کی رپورٹس کے مطابق تین سو سے زائد اسکولوں پر پابندی لگائی گئی جن میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم تھے، جہاں سرکاری سیلیبس کے ساتھ اسلامیات پڑھائی جاتی تھی جس میں ایمانداری، دیانتداری، امن اور بھائی چارے کا درس دیا جاتا تھا۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ یہ ایک لاکھ بچے نہیں بلکہ ایک لاکھ فیملیز جماعت کا ووٹ بینک ہے کیونکہ کہی نہ کہی نظریے کا اثر بچے پر سے ہوکر فیملی سے ہوتے ہوئے کہیں کہیں پورے خاندان پر بھی پڑتا ہے۔ جماعت کے اسکولوں میں زیادہ تر وہ بچے زیر تعلیم ہیں جو مالی طور کمزور یا کسی اور وجہ سے سماج میں پیچھے رہ گئے جنہیں وہاں سے مفت تعلیم، کتابیں، وردی اور اسکالرشپ بھی دی جاتی تھی۔ جماعت کی بچوں پر مشتمل ایک تنظیم  اسلامی جمعیت طلبہ جو بچوں کے لیے تربیتی پروگرام اور انہیں مسابقتی امتحانات کے لیے تیار کراتی تھی ان کا اچھا خاصا رول اس الیکشن میں دیکھنے کو ملے گا۔ جماعت اسلامی جموں وکشمیر ہر کونے تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ جب جب کوئی آفت آئی( سیلاب 2014) یا ہڑتال جماعت کو ہر لمحہ امدادی کاموں کے لیے کھڑا پایا گیا، ہر گاوں میں بیت المال قائم کرنا ان ساری چیزوں سے جماعت بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ گنے تو بہت سی خوبیاں ہے ایک بڑی فہرست  تیار ہو سکتی ہے جن کی بنا پر وہ اس الیکشن میں اپنا دم خم دکھا سکتی ہے۔ جماعت کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام بڑی پارٹیاں اور تنظیمیں اس بات کو قبول کر چکی ہے کہ یہ ایک منظم اور متحرک جماعت ہے جہاں ہر چیز کا حساب صاف اور ستھرا ہوتا ہے اور ہر چیز کی پائی پائی کا حساب لگتا ہے۔ دوسروں سیاسی جماعتوں کے بر عکس جماعت اسلامی کی بنیاد اخلاقی بنیادوں پر ہے جس کی بدولت شاید وہ باقی پارٹیوں سے بہت آگے رہے گی۔ 

وہیں اگر اس تحریک کو اچھے سے پڑھیں تو آج جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر  مختلف قسم کے تبصرے اور تجرے ہو رہے ہیں. مثلاً اس تحریک کا نعرہ اور مقصد حاکمیت الہی ( sovereignty of Allah) تھا لیکن الیکشن میں آتے ہی خود بخود جمہور کی حاکمیت (sovereignty of people) کو تسلیم کیا۔ جماعت اسلامی کے بانی امام ابو اعلیٰ مودودی رحمہ الله کا آدھا لٹریچر سوشلزم اورسیکولرازم  کے خلاف ہے وہی جماعت اسلامی آج اسی سیکولرازم اور سوشلزم کے جھنڈے کے نیچے الیکشن لڑیں گے۔ تاہم جماعت اسلامی کامنشور  ان ساری غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ 

کیا جماعت کے الیکشن میں آنے کی وجہ سے دوبارہ مسلم متحدہ مہاز (Muslim United Front) وجود میں آ سکتا ہے یا اس قسم کا کوئی اور اتحاد؟ ۔ اس میں اہم کردار وقت کے مذہبی پیشوا ہی ادا کر سکتے ہیں. جماعت اسلامی کا زیادہ زور جنوبی کشمیر میں نظر آرہا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے جماعت کے زیادہ تر امیر اور بانی جنوبی کشمیر سے ہی تھے۔ جماعت نے اپنے لٹریچر اور مختلف پروگراموں سے بھی بہت سارے نوجوانوں کو اپنے نظریہ و فکر کی طرف مائل کیا جو اسمبلی انتخابات میں رنگ دکھا سکتے ہیں۔ اسی سال پارلیمانی انتخابات میں جس طرح نوجوانوں نے حصہ لیا اُس سے بھی ہم اندازہ  لگا سکتے ہیں کہ نوجوانوں کا رول کتنا اہم بن سکتا ہے ۔ جماعت کے الیکشن میں آنے سے بہت سی پارٹیوں کو دھجکا لگ سکتا ہے اور اس میں حال ہی میں ابھرتی انجئیر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی بھی ہو سکتی ہے۔ جن بڑے چہروں نے انجئیر کے لیے کمپیننگ کی یاہمدردی کا ووٹ( sympathetic vote) دیا وہ انجئیر رشید سے زیادہ جماعت کے نظریے کے قریب ہو سکتے ہیں اور اس الیکشن میں بھی ہمدردی کا ووٹ جماعت کو مل سکتا ہے۔ اگر آج بارہمولہ پارلمانی سیٹ پر نظر ڈالیں تو چار سے پانچ سیٹوں پر جماعت کی پکڑ مظبوط ہے۔ چونکہ جماعت بذاتِ خود الیکشن نہیں لڑ سکے گی اور  نوکِ قلم کے ساتھ ایک انٹرویو کے مطابق غلام قادر لون کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی سے اتحاد کرسکتے ہیں جو بعد میں ان کے مسائل اُجاگر کریں جس کےےسبب جماعت کو اس عتاب سے نجات حاصل ہو. 

اگر الیکشن میں جماعت کو اپنا رنگ دکھانا ہے اور مرکزی سرکار اور tribunal کو اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہے تو اُنہیں چاہیے کہ پینل کے ممبران کو آگے کریں اور جو بھی عوام میں سوال یا اشکالات ہیں اُن کا میڈیا اور پرس کانفرنسز کے ذریعے جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں. 

( مضمون نگار کی آراء سے ادارہ نوکِ قلم کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی مزکورہ مضمون کو ادارہ کے ساتھ منسوب کیا جائے)