دماغ کی بتی جلا دیں..... افسانہ
- noukeqalam
- 244
- 30 Aug 2024
افسانہ نگار :.... طارق اعظم
مغرب کی جانب سے آفتاب تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ شام بھی تاریکی کی چادر چار سو بچھانے لگی۔ اور رفتہ رفتہ ابر کے سینے سے درخشان اور دلکش چاند نکلا۔ جس کے ارد گرد اور بھی کچھ ٹمٹمانے والے تارے نمودار ہو رہے تھے۔ مطلب کہ یہ ایک ایسا منظر تھا ۔ جس نے میری روح و جسم کو اپنی طرف معلق کیا۔ اب اور زیادہ فرحت اور لطافت حاصل کرنے کے لیے میں نے اپنے صحن سے باہر نکلنے اور دریا کے کنارے پر تنہا بیٹھنے کا مکمل ارادہ کیا۔ چاند نے اپنی نورانیت کے مقناطیس سے مجھے اور میرے دل کو کھینچتے کھینچتے ایک لکڑی کے پل تک پہنچا دیا۔ جس کے نیچے سے دریا خاموشی سے بہہ رہا تھا۔ چاند اور تاروں کا عکس نے اس دریا کے حسن کو چار چاند لگا دی تھی۔میں تنہا بیٹھ گیا ، ایک پھٹیے ہوے بنچ پر ، اور یہ سارا منظر نگاہوں میں قید کر رہا تھا۔ میں دیکھتے دیکھتے اتنا مست ہوا ، کہ حقیقت اور خواب کا ملاپ ہوگیا۔ خواب کے قافلے گزرنے لگے۔ اور میں تھکا ماندہ وہی پیڑ کے نیچے سکون کی نید میں مگن۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا یہ مت کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گناہ ہے یہ سب کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ماں باپ کو بہت تکلیف ہوگی ۔یہ بد خبر سن کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پکار اور یہ باتیں ۔۔۔ میرے کانوں کے دیوار سے اس طرح ٹکرائیں ، جیسے کبھی تیز ہوا کی لہریں لمبے لمبے درختوں کو کبھی دائیں تو کبھی بائیں موڑ دیتے ہیں۔ بعینہ اس پکار نے میرے خیالوں میں کھلبلی مچا دی۔ میں نید سے یک دم بیدار ہوا۔ مشرق مغرب دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔تو کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ آوازیں شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔ مت کر بیٹا ۔۔۔یہ گناہ ہے۔۔۔۔۔۔ زندگی میں نشیب و فراز آتے جاتے ہیں۔ ہمت کر ابھی زندگی باقی ہے۔۔۔۔ میں نے دیکھا تو میرے دور إیک لڑکا پل پر چڑا ہوا تھا ۔ جو دریا میں کودنا چاہ رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔۔۔ میں جلدی جلدی ان کی طرف نکلا۔ بھائی ۔۔۔۔۔میرے بھائی آپ پل سے نیچے آجاو ۔ ایسا بالکل بھی نہیں کرنا۔۔۔۔ میں نے اس جوان بھائی سے کہا۔ وہ کچھ بھی سنے کو تیار نہیں ہو رہا تھا۔ میں اور سفید ریش ضعیف چچا ، ہم۔دونوں نے بہت منت سماجت کی ۔۔۔۔۔۔۔تو ذرا سا نیچے آیا۔ کہا بتاوکیا مسلہ ہے۔ تم دونوں کا۔۔۔۔۔ زندگی میری ہے ۔ تو میری مرضی میں کیا کروں کیا نہیں کروں۔۔۔۔ آپ کو کیا اس کے ساتھ واسطہ۔ نا جان نا پہچان۔۔۔۔ جاو جاواپنا کام کرو۔۔۔۔۔۔۔ بہت غصے میں بولے یہ جوان بھائی ۔ بیٹا ، یہ بات صحیح ہے کہ ہم آپ کے کچھ بھی نہیں لگتے ہیں۔ مگر اتنا تو بتاو آپ کا نام کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔اور کہاں رہتے ہو۔۔۔۔۔ چچا بولے۔
میں نام وام نہیں بولتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کچھ اور بولنا ہے تو بولو ۔۔۔۔ ورنہ میں جس مقصد کے لیے یہاں آیا ہوں ۔مجھے وہ پورا کرنے دو۔ ۔۔۔۔۔۔جوان بھائی بولے۔۔۔۔۔ تو اس پر نرم لہجے میں چچا نے بولا۔۔۔۔ میرا بیٹا۔۔۔۔۔ آپ کو نہیں پتا خودکشی کرنا ہمارے اللہ اور اس کے محبوب ﷺ نے حرام کی ہے۔ اور پتہ ہے اس کا انجام کیا ہے۔ ایسا کرنے والا سیدھا جہنم میں جاتا ہے۔ ہاۓ! نا جانے ماں باپ کیا گزرتی ہے پھر۔۔۔۔ جب ایک اولاد جدا ہوتا ہے۔ بیٹا بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھو میں بوڑھا نہیں ہوں۔ ابھی پنتیس سالہ ہوں۔ لیکن بیٹے کی جدائی نے مجھے بہت کمزور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھو ابھی آنسوں تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اسی لیے آپ کو کہہ رہا ہوں آپ کو مت کر ایسا ۔ وہ جوان بھائی اب پل سے زمین پر آیا۔ اور ہمارے قریب ہوگیا۔ کہنے لگا میں خود کشی نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بات کاٹ لی پھر زور زور سے رونے لگے۔ لیکن ۔۔۔۔۔لیکن پھر کیا ہم دونوں بولے ۔آپ کے جو دل پر جو بوجھ ہے نا آجاو اسے ہلکا کریں۔ چچا نے ایک دم سے اسے اپنے سینے سے لگایا ۔۔۔کہا بیٹا بتاو مجھے کیا بات ہے۔۔۔۔ کون سی ایسی پریشانی ہے جس نے تمہیں یہاں تک لایا۔ اچھا بیٹا پہلے اپنا نام بتاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نادم ۔۔۔۔امی مجھے پیار سے نور بولتی ہے۔ وہ جوان بھائی بولے۔ واہ واہ کیسا پیارا نام ہے۔۔۔۔ نادم۔۔۔۔ لیکن ہم بھی آپ کو نور نام سے ہی پکاریں گے۔ اچھا نور بیٹا بتاو کیا مسلہ ہے ۔کوئی گھر کی پریشانی ہے ۔ ہوسکتا ہے ہم کچھ مدد آپ کو کرسکتے ہے۔چچا بولے۔۔۔ اس پر نور نے دھیمی آواز میں کہا نہیں چچا رہنے دو اس درد کو میں نےدل ہی میں دفن کیا ہے۔ اور بتا کر کیا ہی ہوسکتا ہے ۔ ارے نور بیٹا آپ بتاو تو سہی تم بتا کے دیکھو تمارا یہ بھائی اور تمارا آنکل آپ کے لیے کیا کرے گا۔ چچا بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چچا ۔۔۔چچا ۔۔۔۔۔۔۔ روتے روتے نور کہنے لگا۔ مجھے امی اور ابو کی مفلسی اندر ہی اندر کھائی جا رہی ہے۔ وہ کس کرب سے گزر رہیں ہیں۔ میں اور میرا وہ خدا جانتا ہے۔ یقین کرو چچا کبھی ہارے گھر میں ایک وقت کی روٹی بھی نہیں ہوتی ہے۔ اوپر سے میری پڑھائی ۔آپ ہی بتاوجب کوئی ان کم سورس بھی نہ ہو اور پھر اتنے اخراجات ۔۔۔۔۔۔ ایک غریب باپ کیا کرسکتا ہے۔ اسی ان کی بے کسی دیکھ کر میں نے خود کشی کا ارادہ کیا۔ ورنہ کس کو شوق ہوتا ہے موت کےمنہ میں جانے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ۔۔۔ہاۓ۔۔۔۔۔۔مجھے بتاو کیا یہ کرنے سے ان کی بے بسی دور ہوسکتی ہے کیا؟۔۔۔۔ کیا آپ کی خود کشی کرنے سے ان کے کرب دور ہوسکتے ہے کیا؟۔ چچا بولنے لگے۔ سنو بیٹا اگر یہ بات ہے ۔۔۔ تو آج سے آپ کے گھر کا خرچہ میرے ذمہ ہے۔ اور رہا سوال آپ کی تعلیم کا ۔۔۔۔اللہ کے وہ بھی آپ حاصل کر کے ہی رہو گے۔۔۔۔۔ اور ایک بات سنو دنیا میں جتنی بھی بڑی بڑی شخصیات اُٹھی ہیں ناں ۔ انھوں نے بھی سخت سے سخت وقت کا سامنا کیا ہیں۔ صبر اور ہمت سے کام لیا۔ اپنی منزل کو پانے کے لیے آخری حد تک گۓ ۔اور آج دیکھو پوری دنیا ان کے کارناموں کو تسلیم کرتی ہے۔ اور ان کا احترام بھی بے انتہا کرتی ہے۔ وہ کہتے ہے ناں کہ اللہ اپنے محبوب بندوں کو آزمائش کی راہوں سے گزارتا ہے۔ تاکہ وہ اس مقام کے قابل بنے جو اس نے ان کے لیے رکھا ہوتا ہے۔ بس ہمارا یہ کام ہوتا ہے۔ کہ ہم صبر اور ہمت سے اپنے کام سے کام رکھیں ۔۔۔۔۔ اسی لیےنور بیٹا ۔۔۔۔ آپ کو بھی کہہ رہا ہوں کہ اپنی دماغ کی بتی جلا دے۔۔۔۔ خودی نا بیج ۔۔۔۔۔۔۔غریبی میں نام پیدا کر۔ میری بات یاد رکھنا بیٹا۔ جو لوگ وقت کے حالات سے نہیں گھبراتے ہیں وہ ضرور با ضرور ایک نا ایک دن خوشحالی کی زیست جی لیتے ہیں۔ کیوں کہ یہ میری بات نہیں قرآن کا فرمان ہے۔ کہ ہر غم کے بعد خوشی ہے۔ لہٰزا اپنے دماغ کو استعال کرو۔ اور مایوسی کو دل سے نکل دو ۔ اپنے مان باپ کا مضبوط سہارا بن جاو.
چچا کی یہ سبق آموز نصیحت میں اور نور غور سے سن رہیں تھے۔ پھر نور اتنا احساس ۔۔۔۔۔ بولا چچا تم دیکھنا میں اب ہر مسلہ کا حل خود ڈونڈ لوں گا۔ اور وہ کام کروں گا۔ جس سے میرے ماں باپ کا سر اونچا رہے گا۔ اور آپ سے وعدہ ہے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر کے ہی رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا نور بیٹا میں نکلتا ہوں اب گھر میں اور کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اللہ آپ سب کو ہدایت دیں۔۔۔۔۔۔۔ چچا بھی نکلے اور اور نور بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہی پل پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ آج بات سجھ آئی ۔ کہ ہیں لوگ زمانے میں وہی اچھے۔ آتے ہے جو کام دوسروں کے۔۔۔۔۔ میں اپنے آپ سے کہنے لگا۔۔۔ چلو طارق ہم بھی دماغ کی بتی جلا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔