وادی کرناہ کا سفر نامہ اور مختصر تاریخ.... قسط اول



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:.. شاہ محمد اصغر کرمانی /لولاب

مدرسہ مدینۃ العلوم نواں گبراہ کرناہ کے مہتمم جناب مولانا الطاف حسین قاسمی صاحب کی دعوت پر بتاریخ 27/ اگست 2024/ کو مولانا مشتاق احمد نقشبندی صاحب (فرزند و جانشین قطب زمانہ حضرت مولانا غلام نبی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ) کی معیت میں ماہانہ مجلس فکر آخرت اور دیگر چند پروگراموں میں شرکت کی غرض سے علاقہ کرناہ کا سفر طے پایا. 

گرچہ اولاً راقم کا ارادہ کچھ زیادہ پختہ نہیں تھا  کیونکہ اسے قبل ادارہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر عزیزم قاری فاضل صاحب اور راہد بھائی ڈار الیکٹرانک ہندواڑہ کی وساطت سے ادارہ کے مدرس قاری فیاض صاحب نے پرمیشن بھی بنا لی تھی لیکن آخری لمحات میں مصروفیت کی وجہ سے پروگرام معطل کر دیا لیکن اب کی بار مولانا الطاف صاحب کی جانب سے پروگرام کی تفصیلات ملی جس میں بعد از عصر راقم کی بات رکھی گئی تھی، اور پھر جناب قاری محمد اقبال صاحب چھی پورہ کی جانب سے مولانا کا بہترین تعارف اور خدمات کا سنتے ہی بلاوے کو سعادت سمجھتے ہوئے ملاقات اور استفادہ کی نیت، نیز دوران سفر مولانا مشتاق صاحب کی معیت میں وقت گزارنے کے فوائد کا سوچتے ہی پروگرام کو حتمی شکل دے دی. 

اور 27 /اگست دوپہر 12 /بجے گاندربل سے آنے والے قافلہ جس میں مولانا مشتاق احمد نقشبندی صاحب اور ان کے فرزند جناب توحید صاحب موجود تھے اور وادی لولاب سے ریٹائر انجینئر جناب حاجی خضر محمد صاحب بھی طے تھے کے ساتھ سفرِ کرناہ کا آغاز کیا، کرالپورہ میں ہمارے نہایت ہی مشفق دوست جناب قاری تنویر الاسلام صاحب کی وساطت سے مفتی فردوس احمد قاسمی صاحب مہتمم مدرسہ عثمانیہ سونتھی پورہ کی میزبانی میں دوپہر کے طعام کا نظم تھا وہیں نماز ظہر سے فارغ ہوئے. 

اور تقریباً 2 /بجے کرالپورہ سے کرناہ کی جانب یہ قافلہ روانہ ہوا، چوکی بل کیمپ میں جملہ لوازمات کو پورا کرنے کے بعد جب ہماری گاڑی کیمپ سے باہر نکلی تو یوں لگا کہ کسی الگ ہی دنیا میں آ پہنچےکپوارہ کو براستہ چوکی بل کرناہ کے ساتھ جوڑنے والا یہ واحد راستہ ہے. وادی کرناہ کپواڑہ کے صدر مقام سے تقریباً 80 کلومیٹر کے دشوار گزار پہاڑی سلسلہ اور سطح سمندر سے دس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع "سارھتا گاؤں کو پار کر کے  ایک چھوٹی سی وادی ہے جوکہ "شمس بری" اور `کرانو" کے دامن میں واقع ہے. 

وادی کرناہ کا اشارہ دو ہزار قبل مسیح میں ملتا ہے اولاً یہاں لوگ مال مویشیوں کو چرانے آتے تھے اور بعد میں یہ علاقہ سورج، درختوں اور سانپوں کو پوجنے والو کا مستقل مسکن بن گیااس علاقے کو مالی خوشحالی کی وجہ سے پٹھان کوٹ سے تبدیل کر کے اس کا نام زرلہ" رکھا گیا جو کہ ایک مکمّل شہر تھا یہ حصہ موجودہ سادھنا کے بلکل قریب دوسرے علاقوں سے اونچائی پر واقع تھابعض مؤرخین کے مطابق پہلے یہ وادی ایک جھیل تھی اور راجہ کرن جس کے نام پرراجہ کرن دیا ٹیریاں" مشہور ہے نے ہی آری ڈال کر نکاس بنائی جس سے سارا پانی بہہ گیا اور خوبصورت وادی وجود پذیر ہوئی، جوکہ اپنے قدرتی حسن، سرسبز و شاداب پہاڑوں، بہتی ندیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔


وادی کرناہ کی آب و ہوا بھی خوشگوار ہے اور گرمیوں میں یہ وادی خوشگوار موسم کے لیے مشہور ہے۔ یہ وادی سیاحوں کے لیے بھی ایک جنت نظیر مقام ہے۔

ٹی پی سے "سادھنا" کی جانب دشوار گزار راستوں پر چلتے ہوئے میں کسی اور ہی دنیا میں کھو چکا تھا، میرے سامنے تاریخ کے اوراق میں درج اس درویش خدا کے قافلے کا منظر چل رہا تھا جو گزیٹر آف کشمیر اور تاریخ کبیر کے مطابق سینکڑوں مساجد کے بانی، صاحب کرامت،مبلغ اسلام اور انسانوں اور جنات کے پیر و مرشد،حضرت بابا عبداللہ شاہ غازی الگزریالی کرناہ، دراوہ اور کرگل تک اسلام کی اشاعت کرنے والی عظیم شخصیت۔ نے اس علاقہ میں اسلام کی اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تاریخ کشمیر کے مطابق آپ کی پرہیزگاری کا شہرہ سن کر مغل بادشاہ جہانگیر نے مظفرآباد میں آپ کو جاگیر بھی دی ہوئی تھی جہاں آپ کی بیٹھک بھی تھی،* آپ کے خاندان کے ایک بزرگ پیر حسین بابا، راجہ شیر احمد، کے دور حکومت میں پورے علاقہ دراوہ، کرناہ، کے قاضی بھی رہے ہیں. 

جوں ہی ہماری گاڑی "سادھنا" کے فوجی ناکے پر لوازمات پورے کرنے کے بعد آگے چلی تو شمس بری پہاڑ نے ایک اور کارواں کی یاد دلا دی چونکہ ان پہاڑوں نے کئی زمانے دیکھے ہیں پیدل چلنے والوں سے لیکر گھوڑوں، کھچرو سے ہوتے ہوئے آج چار پہیوں والی ارام دہ سواریوں تک کئی ادوار کے گواہ انہی پہاڑی راستوں کے ساتھ میری ذاتی عقیدت اس بنا پر بھی ہے کہ اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ ہماری پردادی دو یتیم بچوں اور ایک بچی سمیت انہی وادیوں سے گزر کر لولاب کے علاقہ ورنو پہنچی تھی جہاں مولانا معظم شاہ رحمہ اللّٰہ(ولد بزرگوار علامہ کشمیری) نے ان کا استقبال کیا تھا اور پھر آج تک یہ خاندان اپنے کچھ پیاروں کو لکیر کے اس پار ہی چھوڑ کر ایک چھوٹے سے خاندان سمیت ورنو رنگ میں ہی بس گیا. 


اگر چہ کرناہ خطہ راجا کرن کے نام پر ناموَر ہوا۔ مگر ان کے علاوہ کئی اور راجاؤں نے بھے یہاں پر حکمرانی کی۔ہیوگل (چارلس وان ہیوگل )۱۸۳۰ ء کے عشرے میں یہاں سے گُزرا تھا۔کشمیر میں اُسے خاص دلچسپی تھی۔ وہ کشتواڑ، سانبہ، سری نگر اَور پھر اَوڑی سے براستہ مظفر آباد یہاں پہنچا۔۱۸۳۰ء میں کرناہ کا کرتا دھرتا راجا زبردست خان" تھا۔ہیوگل کو یہ نام بہت پسند آیا۔یوں اَپنے سفرنامے میں اُس نے اس نام کامفہوم بھی لکھاہے۔ وہ اُن رستوں سے بھی گُزرا جہاں اس سے قبل" برنیئر گزر" چکاتھا۔خاندان مسعودیہ کے اپنے زمانہ کے بلند پایہ فقیہ قاضی عبد الکبیر رحمہ اللہ(علامہ کشمیری کے دادا جان ) جس علاقہ کے قاضی القضاۃ تھے اس کی حدود کرناہ تک پھیلی ہوئی تھیں وہ کشمیر ہی سے لوات گئے تھے، بعد ازاں خاندان مسعودیہ کے بلند پایہ عالم شیخ الشیوخ مولانا معظم شاہ وادی لولاب کے ورنو اور ان کے برادر اکبر منور شاہ صاحب کپواڑہ کے کاچہامہ علاقہ میں آکر آباد ہوئے. 

یادوں کی اس ریل کے زہن میں چلتے چلتے سفر کی تھکاوٹ تک کو محسوس نہ کرتے ہوئے بالآخر قافلہ "حاجی ناڑ" کے حدود میں داخل ہوچکا تھا، ہمارے قائد سفر حضرت مولانا مشتاق احمد نقشبندی صاحب نے اس دوران ایک بے مثال نکتہ بیان فرمایا کہ بھائی اگر ان جنگلوں میں اس قدر سکون ہے تو بتائیے اللہ کی جنت کیسی ہوگی کیونکہ جنگل تو درندوں، جانوروں کی آماجگاہ ہیں اور جنت کو اللہ پاک نے صرف اہل ایمان ہی کے لیے بنایا ہے سبحان اللہ 

چونکہ ہمارے قافلہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ مولانا مشتاق احمد نقشبندی صاحب کی معیت میں سفر جاری تھا اور حسب ضرورت روحانی غذا کی تھوڑی تھوڑی مقدار ملتی رہی وہیں حضرت کے فرزند جناب توحید صاحب جو کہ اکثر وقت پہاڑوں کے سفر یا پھر نقشبندی ٹراولز کی قیادت کرتے ہوئے حرمین میں گزارتے ہیں کی ماہرانہ ڈرائیونگ سے سفر نہایت ہی آسان بن گیاقدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہمارا کارواں "حاجی ناڑ" جوکہ کرناہ میں داخل ہوتے ہی پہلا گاؤں آتا ہے پہنچا تو جناب قاری فیاض صاحب کا فون آگیا، موصوف نے بذریعہ فون ہماری رہبری فرمائی اور یوں ہمارا قافلہ گبراہ کی جانب رواں دواں رہا. 


ہمارا پہلا پروگرام بھی گبراہ ہی میں تھا جو کہ کرناہ کا ایک مشہور گاؤں ہے، مؤرخین کے مطابق اگر چہ راجہ کرن کا محل کرانوں پہاڑی پر واقع تھا تاہم شاہی خاندان کے دیگر افراد "گیر" میں رہتے تھے گیر کے لغوی معنی آتش پرست کے ہیں اور چونکہ راجہ خود بھی گبر تھا اس لیے اس جگہ کا نام گبراہ پڑ گیا، بعض مؤرخین کے مطابق راجہ شیر خان کے دور حکومت میں گبراہ کرناہ کا صدر مقام تھا، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ آزادی سے پہلے تک کرناہ کا علاقہ وادی درواہ" سے" تلیل" اور جنوب میں" اوڑی" کی سرحد تک پھیلا ہوا تھاگبراہ پہنچے تو مدرسہ مدینۃ العلوم نواں گبراہ جو کہ طرز تعمیر کے اعتبار سے بھی تمام عمارتوں سے بلند اور خوبصورت بھی ہے ہمارے قافلہ کو راستہ میں ایک بزرگ شہری نے تو پہاڑی کی بلندی سے ہی دکھا دیا کہ وہ جو عالیشان مینار والی خوبصورت مسجد نظر آرہی ہے یہی مدرسہ ہے پہلے تو میں یہ سمجھا کہ اس کے ارد گرد کہیں ادارہ ہوگا نہیں جناب اس قدر خوبصورت اور بلند و بالا مسجد کی عمارت اور اس کے گرد درسگاہوں کے دیدہ زیب کمرے یہی تو مدرسہ ہے واہ سبحان اللہ، میرا تو تصور بھی نہیں تھا اس سرحدی علاقے میں اس قدر تعمیر و ترقی والا ادارہ موجود ہوگاادارہ میں پہنچتے ہی قافلہ کا بے مثال استقبال کیا گیا بلکہ میر کارواں کی بدولت چند مالائیں میرے گلے بھی ڈال دی گئیں، لو جی ہم بھی پانچ منٹ کے لئے خود کو اکابر میں سمجھ بیٹھے  البتہ جلدی ہی اپنے من ہی من میں سوچا کہ بھائی یہ تو ان کی نوازش ہے ورنہ تو ہمیں خاندان کے چند بزرگ ابھی دانہ چگنے والا چوزہ بھی نہیں سمجھتے چائے نوش کرنے کے بعد وضو وغیرہ سے فارغ ہوئے تو عصر کا وقت ہوا چاہتا تھا اذان ہوئی بعد از عصر ادارہ کی مسجد میں منعقدہ مجلس فکر آخرت میں مفتی امتیاز احمد صاحب نے نہایت ہی عمدہ انداز میں مجلس کی تفصیلات کو واضح کیا، انداز گفتگو سادہ مگر متاثر کن تھا، اور راقم کو ترغیبی گفتگو کرنے کا حکم ملا جو کہ معذرت کے باوجود مولانا الطاف صاحب کی جانب سے  پہلے سے طے تھا. 

سوچا تو یہ تھا کہ بعد از عصر مسجد میں صرف چند طلباء ہوں گے لیکن یہ صرف گمان تک محدود رہا کیونکہ طلباء کے علاوہ پیر و جواں حضراتِ کی ایک بڑی تعداد مسجد میں موجود تھی مجلس فکر آخرت میں ترغیبی بیان کے بعد معمولات رہتے ہیں اور بعد از مغرب عوام کے جم غفیر میں حضرت مولانا مشتاق احمد نقشبندی صاحب کا بصیرت افروز بیان ہوا جس میں علاقہ کے مقتدر علماء کرام بھی شریک رہے. 

جاری.............