صبر کا دیا...... افسانہ



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



افسانہ نگار :... طارق اعظم /ٹنگمرگ 

رابطہ۔ 8082022014

رات کے ڈھائی بجے یعنی تہجد کا وقت  تھا۔ جب کہ چاند نے نصف منزل پار کر دی تھی۔ خنکی ہوائیں ہر  سمت، شبنم کے قطروں کی آواز۔۔۔ٹپ۔۔۔ٹپ۔  اور خاموشی ہر چیز پر طاری تھی ۔ وہی دامنِ کہسار میں اک گروندا ، جہاں ماں بیٹی پناہ گزیں تھیں ۔ رات کی اندھیری کمرے میں چھا گئی تھی۔ تو ضعیف العمر نحیف البدن خاتون نے اک دیے کو جلایا۔ کمرے کی دیواریں جو کہ مٹی سے لیپی ہوئی تھیں، روشن ہوگئیں ۔ عادتِ جوانی کے مطابق اس ضعیفہ نے ٹھنڈے پانی سے وضو کیا۔ اگر چہ باہر سردی کا موسم بھی چل رہا تھا۔ ہاۓ! وہ کہتے ہے ناں کہ جہاں عشق ہوتا ہے  وہاں انگاروں پر چلنا، مخمل کے فرش پر چلنے سے زیادہ اچھا لگتا  ہے۔ وضو مکمل ہوا ، ہلکی سی سردی محسوس ہوئی ، اللہ ،اللہ کرتے کرتے کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ کمرہ فقط عبادت کے لیے مخصوص رکھا گیا تھا۔  جہاں قبلہ کے سیدھ والی دیوار پر ایک چھوٹی سی الماری تھی جس  کے سر پر لکڑی سے بنا ہوا شلف جہاں یہ قرآنِ مجید اور مصلیٰ رکھا کرتی تھی۔  کمزور ہاتھوں سے آہستہ  آہستہ دونوں قرآن اور مصلیٰ نیچے اتاریں۔ جاۓ نماز بچھا دی، دو رکعت نمازِ تہجد پڑھی اس کے بعد قرآنِ مجید کو  سینے سے لگایا۔ جہاں کل تلاوت مکمل ہو گئ تھی اسی نشانے کو نکال کر ، تلاوت آگے شروع کی یا أيها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلاة ان اللہ مع الصابرین۔۔۔۔۔ خشک ہونٹ جنبش کرنے لگے۔۔۔۔ پورا وجود وجد میں آیا۔۔۔۔ بوجھی ہوئی چشموں سے تارِ باراں ہوا رواں۔۔۔۔ یہاں تک ہچکیاں زور زور سے ہونے لگی۔ تو بغل والے کمرے میں اماں ۔۔۔۔۔اماں جان ۔۔۔۔کی آوازیں آنے لگی۔ جب اماں جی کے کانوں کے پردوں  سے یہ محبت خیز آواز ٹکرائی، تو اس نے جلدی جلدی چادر کے آنچل سے آنسوں پونچھے اور واپس  جواب دیا۔۔۔ ہاں میرا جگر ۔۔۔۔میں یہی ہوں آپ گھبراۓ نہیں ، ابھی آرہی ہوں۔اماں جی  دعا میں مگن ہوئی پھر اچانک سے اسے وہ آواز یاد آئی  اس نے تمام وظائف مختصر کئے اور  دوسرے کمرے میں چلی  جہاں اس کی یتیم بچی سو رہی تھی۔ اماں جی خراماں خراماں اس کے سرہانے بیٹھی ۔ کافی دیر تک اپنی بیٹی کا مہتاب جیسے چہرے کو دیکھتی رہی۔۔۔۔کبھی اسکی جبین کو بوسہ دیتی تو کبھی اس کے گھنگریالے بالوں کو سہلا رہی تھی۔ اور خود سے مخاطب ہو کے بولی میری بیٹی کی آنکھیں بلکل اپنے پاکدامن، شریف اور باوقار باپ سے ملتی ہیں۔ ہاۓ۔۔۔کاش آج یوسف صاحب ہوتے، اور اپنی بیٹی صفورہ کو دیکھ کر کتنے خوش ہوجاتے۔ اماں جی کے کانوں میں وہ یوسف کی باتیں آج پے در پے گونجنے لگی۔ خالدہ جب صفورہ بڑی ہوگی ناں۔۔۔۔تو ہم اس کو اچھی خاصی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے۔۔ اور اس کو زمانے کے بڑے عالمِ دین سے نکاح کریں گے۔اسی طرح بہت ساری خواہشیں۔۔۔۔۔ صفورہ اس وقت صرف تین سال کی تھی۔ جب اس کا جوان باپ حرکتِ قلب کی وجہ سے رخصت کر گئے ۔  دل  میں جو تمنا ، آرزو  اور شوق تھے دل میں ہی رہ گئے ۔آہ۔۔۔۔کتنی بے رحم ناں دنیا ۔۔۔خالدہ کی آنکھیں نم ہوگئی اور آنسوں کے گرم گرم قطرے صفورہ کے معصوم چہرے پر گر  پڑے۔ یک دم اسکی آنکھیں کھلی ۔۔۔۔اماں جی۔۔۔۔۔ یہ آنسوں۔۔۔۔۔آپ کیوں رو رہی ہو۔ آپ ابھی تک سوۓ نہیں ۔۔ کیا آپ کو درد ہے ۔۔۔۔اماں بڑی ہمت کر کے بولی ۔ نہیں بیٹا بس ایسے ہی ۔ اچھا سوتے ہیں۔ دیر ہوگئی۔ ماں نے اپنی بیٹی کو سینے سے لگایا اور بیٹی نے ماں کے زرد چہرے پر اپنا ہاتھ رکھا۔ اود سو گئیں۔۔۔۔۔ 

                                                  صبح صادق ہوچکا تھا۔ پرندیں مختلف بولیوں میں حمدِ باری تعالیٰ کرنے لگے۔ کہی کوئل خاموش جنگل میں گو گو۔۔۔۔کہی ھُد ھُد یا ھُو کا دم بھر رہا ہے۔ آفتاب جہتِ مشرق سے  طلوع ہونے لگا۔ آسمان پر سُرخ لکیریں نمدار ہونے لگی۔ وہی اک کرن  سفر  کرتے کرتے خالدہ کے گھر کے روشن دانے سے داخل ہوئی اور صفورہ کی آنکھوں پر ٹھہری ۔صفورہ نے آنکھوں کو ملنے لگی ، رضائی کو ہٹایا ۔ اماں جان۔۔۔۔اماں جان اُٹھیں ۔ یہ دیکھیں آج کتنی دیر ہوگئی ہے۔ اُٹھیں ناں۔۔۔ اماں۔۔۔ واپس کوئی بھی جواب نہیں آرہا تھا۔ صفورہ خائف کے عالم میں پڑ گئ۔ اس نے تھوڑی سی  ہمت کی اور اسکا نبض چیک کیا۔۔۔۔۔ امی۔۔۔۔۔صفورہ کا پورہ وجود جمود ہوا ۔ رگوں میں خون منجمد ہوا۔۔۔ آنکھیں دنگ رہ گئی۔ منہ کھلا ، ہنوٹوں میں تھر تھراہٹ۔ اندر دل میں جزباتوں کو کھل بلی مچ گئی۔ اور  لمبے وقفے کے بعد صفورہ کے حلق سے  ایک چیخ نکلی۔ اماں جان۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی مجھے چھوڑ  کے چلی گئی کیا۔۔۔ میں۔۔۔۔آپ کی چھوٹی صفورہ ۔۔۔۔۔ آپ کا جگر کہاں جاؤں۔ آنکھوں سے قلزم اور دریاء نیل ایک ساتھ  بہہ رہے تھے۔ شاید خالدہ اپنے شوہر یوسف کی جدائی کو برداشت نہیں کر پائی۔ عرب والا کہا کرتے ہیں  کہ۔ جدائی موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔  بہرحال وہی ہوتا ہےجو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ پورے محلے میں خالدہ کی فوتگی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ تجھیز و تدفین مکمل ہوئی۔ یوسف کے پہلو میں خالدہ کی قبر بنائی گئی۔ دور سے اس طرح لگ رہا تھا۔ جیسے صد سال کے بعد کسی  منتظر کو اپنا محبوب گلے لگا ہے۔

                     وقت کی سوئیاں تو  آگے کو ہی چلتی رہتی ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم وقت انسانوں کو بھی آگے آگے دھکیلتی رہتی  ہیں۔  زمانہ اپنے درد کتنے درد چھپاتا رہتا ہیں۔ لیکن اس یتیم بچی کا درد اتنا شدید تھا۔کہ نا زمانہ چھپا سکھا ۔  نا صفورہ خود۔۔۔ لاکھ چمن ویران ہوجاۓ بھی اگر لیکن کاروانِ دنیا تھوڑی ہی بند ہوگا۔اب صفورہ کی پروش نانی حال کے گھر میں ہورہی تھی۔ جو کہ اس کے گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ نانی اور نانا صفورہ کا نہایت ہی خیال کرتے تھے۔ اسے ماں باپ کی محرومی محسوس ہونے نہیں دیتے تھے۔ لیکن گجا بقدر اپنے والدین کا سایہ۔۔۔۔۔ تاہم اسکے بڑے  ماموں محمد حکیم  نے اپنی یتیم بانجی کا بارویں جماعت کا  ایڈمشن گورنمنٹ ہائرسنکڑی میں کیا۔ صفورہ روز نانی حال سے سکول پیدل جایا کرتی تھی۔ جس راستے اسے جانا پڑتا تھا ۔ اس کے بیچ میں اسے اپنا گھر آتا تھا۔ وہ آدھی آدھی نظریں اس گھر کی طرف ڈالتی اور نہ جانے کس کرب سے گزرتی تھی۔ آنکھوں کے درچے پر کچھ آنسوں نکل آتے، تو انہیں وہی صبر کے ریگستان میں جزب کر لیتی ۔ وہ اکثر کلاس میں خاموش بیٹھا کرتی تھی۔ اسکے شوخ چہرے پر کرب و درد  کی داستانیں واضع ہو رہی تھی۔ ایک دن حامد سر جو کہ ان کا اردو استاد  تھا۔ ماں باپ کی خدمت گزاری ،اہميت   اور ان کے حقوق پر کلاس میں لیکچر دے رہا تھا۔ سب بچے بچیاں غور سے سن رہے تھے۔ وہی صفورہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔حامد سر اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اور بولا۔ صفورہ۔۔۔صفورہ۔۔۔ بیٹا آپ کیوں رو رہی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں بولی بس روتی روتی بے ہوش پڑی۔ حامد سر نے اسکو اپنے سینے سے لگایا ۔ اسے اپنے یتیمی کے دن یاد آئے اور خود بھی رونے لگا۔ کچھ دیر بعد صفورہ کی آنکھیں تھوڑی تھوڑی کھلی ،  اماں جان ۔۔۔۔اماں جان۔۔۔۔۔ مجھے پانی دیں۔ کلاس میں صفورہ کی ایک سہیلی نے اسے پانی پلایا۔ اور صفورہ مکمل ہوش میں آئی۔ وہ اپنے استاد کی طرف موڑ گئی اور دھیمی آواز میں بولی ۔ سر جس کے دونوں ماں ، باپ  نہیں ہو۔ وہ کیا کریں۔۔۔۔ اس کی آواز درد سے لبریز تھی۔ حامد صاحب کا سر نیچے ہوا اور کافی وقفے کے بعد وہ صفورہ کے طرف دیکھ کر بولے۔۔۔۔۔ صبر۔۔۔۔صبر۔۔۔۔وہ بھڑک اُٹھی اور بولی۔ کیا صبر ۔۔۔صبر۔۔۔ میری اماں بھی مجھے بولا کرتی تھی۔ صفورہ  زندگی کی تاریکیوں میں صبر کا دیا جلانا۔ لیکن سر آپ دیکھے ناں میں کتنی چھوٹی ہوں اور صبر کرنا۔۔۔۔۔۔۔ حامد سر اسکی باتیں سکون سے سنتا رہا ۔ آخر میں بولے۔ بیٹا جن کلفتوں سے آپ گزر رہی ہو ۔ میں نے یہ آگ کے دریا پار کئے ہیں۔ پتا ہے کیسے ۔۔۔۔۔ صفورہ کے ہونٹوں پر ذرا سی مسکراہٹ نمودا ہوئی اور بولی۔ کسیے پار کئے ہیں سر۔۔۔۔۔ قسم اس خدا کی بس صبر کی کشتی میں بیٹھ کر پار کئے ہیں صفورہ۔۔۔۔ ورنہ میری حالت پتہ نہیں کیسی ہوتی۔ لوگوں نے کتنے مذاق میرے اُڑاۓ ہوتے۔ پھر ہر روز در در پر جا کر مدد کی دستک دینے تھی۔ لیکن شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا ۔۔۔ بے سہارا نہیں کیا۔ صفورہ مجھے عرب والوں کی ایک کہاوت یاد آئی ۔ وہ کہا کرتے ہے۔ کہ شر میں خیر ہوتا ہے۔ واقعی اللہ نے مجھے شر سے خیر نکال کے دے دیا۔ اور نوشیروان کا قول بھی ہے۔ کہ تمام دنیاوی مصیبتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک میں تدبیر کام دیتی ہے۔ جیسے کہ بے چینی کی دوا ہے۔ دوسری میں کوئی تدبیر نہیں صرف صبر کام آتا ہے۔ بیٹا ایک حکیم کہا کرتے تھے۔ کہ جن چیزوں کا کوئی علاج نہیں وہاں صبر کام دیتا ہے۔ صفورہ ۔۔۔۔۔میں با اُمید  ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ انشاء اللہ آپ بہت آگے جاؤ گے۔ بس صبر کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا۔ آپ پریشان نا ہو ۔کسی بھی چیز کی آپ کو ضرورت  پڑے تو مجھے بتانے میں شرم نہیں کرنا۔آج سے آپ میری دوسری بیٹی ہیں ۔ حامد صاحب  نے صفورہ کے یتیم سر پر اپنا شفقت کا ہاتھ رکھا۔ اور نکلنے لگے۔ وہ ابھی دروازے پر ہی پہنچے تھے۔ تو صفورہ نے پیچھے سے آواز دی۔ سر ۔۔۔۔۔سر۔۔۔۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنی ہے ۔ جی بیٹا بولیں۔ سر میری امی روزانہ تہجد پڑھا کرتی تھی۔ اور پھر اپنے پروردگار سے باتیں کیا کرتی تھی۔ وہ بہت مناجات پڑتی تھی۔ لیکن مجھے ان کے پڑھنے سے ایک کلام یاد رہا مجھے اسکا مفہوم  سمجھ میں آرہا ہے۔ کیا آپ سمجھائیں گے سر۔ جی بیٹا آپ بتائے کیا تھا وہ کلام۔ جی سر وہ کچھ اس طرح کا تھا کہ۔ خدا شرے بر انگیزد کہ خیر مادر آں باشد،  ۔ہاے۔۔۔۔ ہاۓ۔۔۔۔۔ یہ تو وداعہ السہمی کا کلام ہے۔ بیٹا جب میرے باپ کا انتقال ہوا تھا ۔ تب جنازے پر ہمارے امام صاحب نے یہ کلام پڑھا تھا۔ اس کا مطلب ہے۔ کہ شر پیش آۓ تو صبر کرو کہ اکثر شر سے خیر نکلتا ہے۔  صفورہ کی امیدوں کے مجسم میں جان آئی اور بولی۔ سچ میں سر کیا ایسا ہوتا ہے۔ جی ہاں بیٹا بکل ایسا ہوتا ہے اور میرے ساتھ تو ہوا ہے۔ حامد سر پورے کلاس کی طرف متوجہ ہوگئے اور بولے۔ میرے پیار بچوں ہمارا پرودگار قرآنِ کریم میں فرماتے ہے۔ کہ ہر مشکل وقت میں صبر کرو۔ کیونکہ صبر کرنے والوں کو میں بہت پسند کرتا ہوں۔ صبر مومنوں کی خاصی صفت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی مبارک زندگی میں صبر کا بہت اہتمام کیا ساتھ ساتھ ہمیں بھی اس کی تلقین کی ہے۔ تو میرے بچوں کون کون آج کے بعد صبر کا  دیا زندگی کے مشکل اور تاریک دنوں میں جلایےگا۔۔صفورہ نے سب سے پہلے ہاتھ اوپر کیا۔۔۔۔ سر میں  اپنی اماں جان کا صبر کا دیا  ہمیشہ روشن رکھوں گی۔۔۔چھٹی کا ٹائم پہنچا تھا۔ سب بچوں کی طرح آج صفورہ بھی پہلی بار خوشی خوشی گھر کی طرف لوٹ واپس جا رہی تھی۔۔۔۔۔