وادی کرناہ کا سفرنامہ اور مختصر تاریخ ( دوسری و آخری قسط)
- noukeqalam
- 38
- 04 Sep 2024
✍️:.... شاہ اصغر کرمانی /ادارہ الاتقان لولاب
مدرسہ مدینۃ العلوم نواں گبراہ علاقہ کا ایک مرکزی ادارہ کہلاتا ہے جس کے تحت کئی دیگر مدارس و مکاتب کام کر رہے ہیں ادارہ کے سرپرست معروف روحانی شخصیت قاری محمد حسین دانش صاحب ہیں اس اعتبار سے ادارہ میں ہر لمحہ کاشف العلوم گوس کی روحانی خوشبو محسوس ہوتی رہی، کلاس سے لیکر مہمان خانہ تک ہر چیز نہایت ہی سلیقہ کے ساتھ رکھی ہوئی ہے، نیز کلاس روم ہو یا کمرے ہر جگہ صفائی اور نظافت کا خاص خیال رکھا گیا ہے
پھر ادارہ کے اساتذہ خصوصاً بلا مبالغہ اخلاص و سادگی کے پیکر مہتمم مدرسہ مولانا الطاف صاحب کے متعلق کیا لکھا جائے زبان گنگ ہو جاتی ہے کہ
*جن کے کردار سے آتی ہے صداقت کی مہک*
*ان کی تدریس سے پتھر بھی پگل جاتے ہیں*
میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ کس انداز میں کارکنان ادارہ کی محنت اور لگن، اخلاص وللہیت کو بیان کروں
البتہ اپنے مربی و مشفق ساتھی ڈاکٹر مفتی ظہور احمد شاہ قاسمی ندوی صاحب کے سفر نامہ سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں، لکھتے ہیں کہ
( مولانا الطاف قاسمی صاحب ایک باصلاحیت عالم دین ہیں، دار العلوم دیوبند سے ۲۰۰۴ میں اعلی نمبرات سے کامیاب فاضل ہیں، مولانا کا اصل وطن کلاروس لولاب ہے، لیکن آپ فراغت کے فورا بعد استاذ محترم مشفق و مربی حضرت قاری محمد حسین دانش صاحب دامت برکاتہم العالیہ مہتمم مدرسہ کاشف العلوم گوس کپواڑہ کشمیر کے حکم سے کرناہ منتقل ہوئے، اس لیے کہ مولانا الطاف صاحب مدرسہ کاشف العلوم گوس کپواڑہ کے اطاعت شعار، باصلاحیت اور قابل فخر طلبہ میں سے رہے ہیں، لہذا انہوں نے استاذ محترم کی ایماء پر اپنی خواہشات اور امنگوں کو جو ہر فاضل و تعلیم یافتہ کے دل میں تعلیم کی تکمیل کے موقع پر مستقبل کے حسین خوابوں کی شکل میں بلائیں لے رہی ہوتی ہیں بالکل نظر انداز کردیا، جب مولانا کرناہ منتقل ہوئے تو اس وقت مدرسہ ایک پرائیویٹ اسکول کی شکل میں تھا، مولانا نے یہاں انتہائی کسمپرسی کے حالات میں کام شروع کیا، ابھی کرناہ گئے ہوئے کچھ ماہ ہی گزرے تھے کہ 2005ء کا قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے وادی کے طول و ارض کو بالخصوص آر پار کشمیر کو سخت متاثر کیا، فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہوکر رہ گئیں، بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد ہوکر رہیں، محلات اور کوٹھیوں میں رہنے والے چشم زدان میں خاک نشین ہوگیے، مدرسے کی یہ مختصر سی عمارت بھی ختم ہوگئی تھی، ان حالات کے بعد یہاں وقت گزارنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، مولانا کے پائے ثبات بھی شاید لڑکھڑا جاتے، لیکن حضرت قاری دانش صاحب نے انہیں تسلی دی، اور انہیں آمادہ کیا وہ ان حالات کا مقابلہ کریں، اس وقت ان علاقوں میں کام کرنا اس لئے بھی اہم تھا کہ زلزلہ کی قیامت خیز تباہی کے بعد بہت سی کفریہ جماعتوں نے ہمدردی اور غمگساری کے نام پر یہاں کے سادہ لوح لوگوں کو شکار بنانے کا ہر حربہ اختیار کیا، اس موقع پر جن نفوس نے یہاں رہ اپنی خواہشات کو قربان کیا، سادہ لوح مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور اس خطے میں دین اسلام کی بقا کے لیے اپنا سب کچھ تج دیا وہ ہزارہا مبارکبادیوں کے مستحق ہیں، مولانا اپنی داستانِ غم سنائے جارہے تھے اور دوسری طرف آنکھیں اشکبار ہونے کو تھیں، ان حالات کا تصور کرکے خود کو ان کے مقام پر رکھنے سے دل ہل جاتا اور کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا، مدرسے کی عمارت اور تمام ساز و سامان کی مکمل تباہی کے بعد ایک معمولی سا ٹین شیڈ بنایا گیا، اسی میں ایک بڑا وقت گزرا، آخر حکومت کی جانب سے لوگوں کو رہائش گاہوں کے لیے جو معمولی سی امداد ملی، اہل مدرسہ نے عوام سے گزارش کی کہ اس رقم سے ایک ہزار روپیہ مدرسے کی تعمیر کے لئے دیں، لوگوں نے مدرسے کو خود پر ترجیح دیتے ہوئے دل کھول کر تعاون کیا، اس طرح سے مدرسے کی نشاۃ ثانیہ ہوئی، مولانا نے بتایا کہ سردیوں میں کئی کئی ماہ گزرجاتے والدین کی کوئی خبر تک نہ ملتی، اس لئے کہ اس علاقے میں بھاری برف باری کی وجہ سے نقل و حمل کے سارے وسائل مسدود ہوکر رہ جاتے ہیں، بالآخر مولانا اور ان کے رفقائے کار بالخصوص قاری فیاض احمد صاحب کاشفی کی کاوشیں اور عزم واستقلال کے ساتھ تمام مصائب کو برداشت کرتے ہوئے جہد مسلسل رنگ لائی اور اب اس ادارے نے مختصر سے جامعہ کی شکل اختیار کی ہے، ادارے میں اس وقت طلبہ کی تعداد سوا سو کے آس پاس ہے، ادارہ بنین کے بالکل قریب شعبہ بنات کی ایک پر شکوہ عمارت ہے، جہاں دو ڈھائی سو بچیاں زیور تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں، بنات کی یہ عمارت بھی تین منزلہ ہے جو کئی دفاتر، لائبریری اور متعدد کشادہ کلاسوں پر مشتمل ہے، اسی عمارت کی ذیلی منزل میں مولانا اپنے اہل و عیال کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔)
رات گزرتے ہی اگلے روز علی الصباح سرحدی مقام ٹٹوال کا رخ ہوا، ہمارے رہبر باصلاحیت اور مخلص نوجوان عالم مفتی اعجاز احمد صاحب رہے جنہوں نے ہر دو منٹ بعد کوئی نہ کوئی نیا اور دلچسپ مقام دکھایا، فوجی لوازمات پورے کرنے کے فوراً بعد آدھ گھنٹہ میں ہی چلتے چلتے ہم وہاں پہنچے جہاں ٹیٹوال شہر کی جھلک ملتی ہے۔ یہاں *ہماری نظروں کے سامنے چڑھتے سورج کی شعاعیں چھنک چھنک کر اُتر رہی تھیں۔ درمیان میں کشن گنگا بہہ رہاتھا۔ اُس کی آواز تھی ،اس کے پانیوں کاساز تھا، یہاں پروادی تقسیم تھی، ٹیٹوال تقسیم تھا، ایک ریاست تقسیم تھی اَور لوگ تقسیم تھے۔*
*جغرافیہ نے کاٹ دئے راستے مرے*
*تاریخ کو گلہ ہےکہ میں گھر نہیں گیا*
لفظ تقسیم شاید ہی کبھی معتبر ٹھہرا ہو۔یہ جہاں بھی گیا فساد، جھگڑا ،اجتماعی قتل، خون ریزیاں اَور خون کی ہولیاں ۔۔۔یہ سارے مقدمے ،الزام اسی کے سر جاتے ہیں،
تاریخ کے نشیب و فراز میں یہ علاقہ بھی کئی مراحل سے گزر چکا ہے، *مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں جب کرناہ کو تحصیل کا درجہ ملا تو ٹیٹوال صدر مقام کہلایا،*
*ٹیٹوال دریائے نیلم کے کنارے واقع ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ اپنے خوبصورت پہاڑی علاقے کے مقابلے میں ٹیٹوال کی وجہ شہرت یہاں سے پاکستانی کنٹرول میں موجود کشمیر کا نظارہ ہے۔ اس سے وہاں آنے والے سیاح کو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ایک ہی علاقے کے دو حصے ایک دوسرے سے جدا ہیں، ٹیٹوال ایک لائف ٹائم تجربہ ہے کشمیر کے ہر باشعور شخص کو زندگی میں ایک بار ٹیٹوال جانے کے بارے میں سوچنا چاہئے، یہ پہاڑوں میں گری ہوئی سرسبز اور شاداب وادی ہے، آپ کو چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑ گھیر لیتے ہیں۔ آپ دریائے نیلم کے کنارے کھڑے ہوجائیں تو آپ کے بالکل سامنے دریا کے دوسرے کنارے پاکستانی کشمیر ہے۔ دریا کا ایک کناره پاکستان ہے اور دوسرا کنارہ ہندوستان۔ آپ کو اپنی ناک کے بالکل سامنے تھوڑی سی بلندی پر پاکستانی حدود میں فصلیں بھی دکھائی دیتی ہیں، مکان بھی، مال مویشی بھی اور چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں بھی.
آپ کے سامنے پاکستان اور پیچھے ہندوستان ہے۔
یہاں ٹیٹوال میں ہمارے انتظار میں مولانا اخلاق صاحب پہلے سے موجود تھے. جن کے متعلق پہلے بھی سنا تھا کہ موصوف مہمان نوازی کے جذبے سے سرشار ہو کر ہر آنے والے کا تہہ دل سے استقبال کرتے ہیں موصوف کی قیادت میں ہم آگے سیماری تک گئے جہاں اس جانب والا راستہ ختم ہو جاتا ہے
ٹیٹوال ہی وہ مقام ہے جہاں سے آر پار موجودہ وقت کے دو ممالک کو ملانے والا پل بھی موجود ہے
لیکن یہ راستہ بند رکھا گیا ہے جوکہ نہایت ہی افسوسناک ہے کیونکہ اس لکیر نے کئی خاندانوں کو کاٹا ہے اور یہ درد *دردِ لادوا* ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت وقت ماضی کی طرح دن بدن نفرتوں کو ختم کر کے سیاحوں کے لئے لوازمات کی پابندی کے ساتھ دو ممالک کو جوڑنے والے راستوں کو آپسی محبت اور ملاقات کا ذریعہ بناتے، یہ قدم ملکی معیشت کے حق میں بھی بہتر رہتا، جیسا کہ کئی ممالک کے باہمی دوستانہ تعلقات اس قدر ہیں کہ سرحد پر تعمیر شدہ مکانات کا آدھا حصہ ایک ملک میں ہے تو آدھا حصہ دوسرے ملک میں، جہاں دروازہ ایک ملک میں کھلتا ہے اور کچن دوسرے ملک میں ہے
*ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن ہمسایہ نہیں، لیکن آج تک اس بات پر کہیں عمل دکھائی نہیں دیا.
ہم نے سیماری سے واپسی کی راہ لی اور مولانا اخلاق صاحب جو کہ پردیسی ہو کر بھی واقعی اخلاق کے پیکر ہیں موصوف کا وطن اصلی پونچھ ہے لیکن عرصۂ دراز سے یہاں سرحد کے قریب ایک دینی ادارہ چلا رہے ہیں، ادارہ میں ہم ناشتہ سے فارغ ہوئے، تو اگلے پروگرام کا خیال آگیا، جو کہ نواں گبراہ میں قائم شعبہ بنات کے عالمیت تک تعلیم دینے والا معروف ادارہ مدرسہ اصلاح البنات زیر نگرانی مدرسہ مدینۃ العلوم نواں گبراہ میں خطاب برائے مستورات طے تھا، اسی روز ہمارا دوسرا پروگرام مولانا الطاف صاحب اور مفتی اعجاز صاحب کی نگرانی میں قائم مدرسہ بنات ھجیترا میں منعقدہ مستورات مجلس میں تھا جہاں ادارہ کے اساتذۂ کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا یہ ادارہ بھی کم وقت میں کافی حد تک اپنے تعلیمی اور تعمیراتی مشن کو عبور کرنے والا ادارہ پایا، بلکہ اہم بات یہ کہ تصحیح قرآن کریم کے اعتبار سے محنت کو سن کر دل خوش ہو گیا. ادارہ کے مہتمم قاری محمد اعظم صاحب کو بھی نہایت ہی ملنسار اور سادہ طبیعت پایا،
چونکہ راقم کا تعلق ادارہ الاتقان کے ساتھ ہے جس کے تحت آنلائن مختلف کورسز کے علاوہ ضلع کپواڑہ میں تقریباً 57 آفلائن مکاتب بھی چل رہے ہیں لہٰذا موقع پاتے ہی میں نے اپنے سفر میں رنگ بھرنے والے نوجوان عالم دین جناب مفتی اعجاز احمد قاسمی صاحب کے ساتھ علاقہ کرناہ میں مکاتب کے حوالے سے بھی گفتگو کی، تو یہ سن کر خوشی ہوئی کہ علاقے کے علماء و مدارس مکاتب کے حوالے سے بھی کافی متحرک ہیں.
چنانچہ اس اعتبار سے وہیں پر یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ جلد ہی اپنے چند ساتھیوں سمیت علاقہ کرناہ میں مکاتب کے کام کو دیکھنے اور استفادہ کی غرض سے دوبارہ چند روزہ پروگرام ترتیب دیں گے ان شاءاللہ،
یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علاقہ کرناہ جو کہ *پورے خطہ کشمیر میں واحد علاقہ ہے جہاں غالباً کسی عالم ربانی ولی خدا کی محنت سے عوام میں ماہ رجب میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا مزاج پایا جاتا ہے.* اور یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے چند سالوں سے مدارس کے نام پر جیب بھرنے والے کچھ جعلی سفراء کی جانب سے *جمعیت علمائے کرناہ* نامی تنظیم کو شدید تنقید کا سامنا رہتا ہے
راقم نے اگر چہ کئی مرتبہ علماء کرناہ کے دفاع میں لکھا بھی ہے، کہ یہ چھوٹا سا علاقہ ہے اور پھر سفراء پورے ملک سے آجاتے ہیں، اس لئے علماء کرناہ کے یہ اقدامات کہ محدود وقت کے لئے ضرورت مند اور مستند اداروں کے سفراء کو صرف مسجد میں ہی چندہ کی اجازت ہوگی، یہ بروقت اور بہتر اقدام ہے ورنہ آنے والے وقت میں اس کے برے نتائج کا سب سے زیادہ سامنا علماء کرناہ ہی کو کرنا پڑے گا
الغرض اس سلسلے میں علماء کرناہ کے اتحاد کو کامیابی ملی
اور چندہ کے حوالے سے ایک منظم سسٹم بن چکا ہے بلکہ مولانا الطاف صاحب کی وساطت سے یہ بات سن کر دل خوش ہو گیا کہ کرناہ کے عوام آج بھی اپنے علماء اور مدارس پر بے انتہا بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں بلکہ اداروں کا بھر پور خیال بھی رکھتے ہیں اور اس بات کا اندازہ سرحدی قصبہ ہونے کے باوجود مدارس تعمیراتی ڈھانچوں کو دیکھنے سے بھی ہوجاتا ہے،
نماز عصر سے قبل ہم مدینۃ العلوم نواں گبراہ کے جملہ مخلص اساتذۂ سے رخصت لیکر مہتمم مدرسہ مولانا الطاف حسین صاحب اور مفتی اعجاز صاحب کی قیادت میں ٹنگڈار جو کہ اس پورے علاقہ کا موجودہ ہیڈ کوارٹر ہے کی جانب روانہ ہوگئے، ٹنگڈار میں نماز عصر اور چائے، (علاقہ کے معروف عالم دین جن کا نام پہلے بھی کئی مرتبہ سنا تھا البتہ ملاقات پہلی بار ہوئی) مولانا عطاء الرحمٰن صاحب کی معیت میں دارالعلوم شاہ ہمدان ٹنگڈار میں ہوئی، مولانا عطاء الرحمن صاحب علاقہ میں رابطہ مدارس عربیہ کے رکن عاملہ بھی ہیں۔
ہمارا اگلا سفر نیچیاں میں قائم مدرسہ دار العلوم صدیقیہ تھا جہاں بعد از مغرب ملحقہ مسجد میں پروگرام بھی تھا، ہم بر وقت پہنچ کر چائے سے فارغ ہوئے، نماز کا وقت ہو چکا تھا، مسجد کھچا کھچ بھر چکی تھی، مجلس میں مولانا مشتاق احمد نقشبندی صاحب کا بیان تھا، الحمد للہ نہایت ہی عمدہ روحانی مجلس رہی، یہ مجلس بھی مولانا الطاف صاحب ہی کی ایماء پر منعقد ہوئی تھی، لیکن سادگی اور اخلاص کا یہ پیکر دن بھر اپنی جملہ مصروفیات کو ترک کر کے بے مثال میزبانی کا حق ادا کرگیا۔ عشاء کے بعد اگلی ملاقات کا وعدہ کرتے ہوئے مولانا ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت لیکر گبراہ کی طرف روانہ ہو گئے، البتہ ادارہ کے مہتمم مولانا مفتی سجاد احمد صاحب نے بھی میزبانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، اس پر مستزاد یہ کہ یہاں مکی کی روٹی بھی کافی عرصہ بعد کھانے کو ملی جو کہ واقعتا کافی لذیذ تھی،
اگلے روز علی الصباح چار افراد پر مشتمل قافلہ واپسی کے لیے روانہ ہوگیا. طلوعِ آفتاب کا وقت تھا اور کرناہ میں ہمارے اس سفر کی یہ آخری رات رخصت ہو چکی تھی اور نئی صبح میں ہلکی بارش کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھیں اور ہم بھی ایمانی نسبت کی بنیاد پر اہل کرناہ خصوصاً علماء کی بے پناہ محبتوں کے مقروض ہو کر واپس نکل رہے تھے.....
اور میر انیس کا یہ کلام زبان پر جاری تھا کہ
خورشید نے جورُخ سے اُٹھائی نقاب شب
در کھل گیا سحر کا ہوا بند باب ِشب
اَنجم کی فرد فرد سے لے کر حساب ِشب
دفتر کُشائے صبح نے اُلٹی کتابِ شب
گردُوں پہ رنگ چہرہ مہتاب ِفق ہوا
سلطان ِغرب وشرق کا نظم و نسق ہوا
یُوں گلشن فلک سے ستارے ہوئے رواں
چُن لے چمن سے جس طرح پھولوں کو باغباں
آئی بہار میں گُلِ مہتاب پر خزاں
مُرجھا کے رہ گئے ثمر و شاخ ِ کہکشاں
دِکھلائے طور بادِ سحر نے سُموم کے
پژمردہ ہو کے رہ گئے غنچے نُجوم کے
واپسی پر وادئ لولاب کے نوجوان عالم دین مولانا مفتی اعجاز احمد شاہ قاسمی صاحب کی دعوت پر مدرسہ عارفیہ شولورہ کرالپورہ میں چند لمحات گزارنے کا موقع ملا، مفتی صاحب کی محبت بھری چائے نوش کی، مولانا مشتاق احمد نقشبندی صاحب نے طالبات میں بذریعہ مائک چند ناصحانہ کلمات کہے اور دعاء کی۔
یہ مدرسہ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد اور خادم خاص مولانا نور الدین مدنی رحمہ اللہ کا قائم کردہ ہے، جوکہ پچھلے تیس سالوں سے طالبان علوم کی پیاس بجھاتا آرہا ہے، سونے پہ سہاگہ یہ کہ چند سال قبل جب سے مفتی اعجاز صاحب ادارہ کے مہتمم منتخب ہوئے علماء مشائخ کا ورود مسعود بکثرت ہورہا ہے۔
قصہ مختصر کہ ٹیٹوال و کرناہ کا سفر ایک یادگار تجربہ ہے جو قدرت کے حسین مناظر، پرسکون ماحول اور مہمان نواز علماء کی موجودگی میں مزید خوبصورت بن جاتا ہے۔ختم شد.......