"مقامات خمسہ" (دیوبند، سہارنپور ، نانوتہ ،شاملی، تھانہ بون ،گنگوہ) کا سفر نامہ



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ



✍️:. قیصر احمد لون /ترہگام کپواڑہ 

گزشتہ ہفتے ہندوستان کے ان پانچ مقامات کے سفر کی سعادت نصیب ہوئی جن کو"مقامات خمسہ" کے نام سے جانا جاتا ہے، جن میں سے (دیوبند/سہارنپور ، نانوتہ ،شاملی، تھانہ بون ،گنگوہ) شامل ہوتے ہے یہ پانچوں مقامات اپنے تعلیمی،اصلاحی اور روحانی اثرات کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں اور ہندوستان میں اسلامی علوم اور تحریکات کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ان مقامات سے بڑے علماء دینِ،حکیم الامت، حجۃ الاسلام جیسے، اسلام کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیتے رہے ہیں:

الحمدللہ شاملی کے میدان کے علاوہ تمام جگہوں کی سعادت و زیارت نصیب ہوئی۔انشاءاللہ تینوں مقامات پر تین مضمون قارئین کے خدمت اقدس میں شائع کئے جائیں گے،  بغیر سہارنپور کے کیونکہ وہاں تو سفر کر چکا ہوں لیکن چند چیزیں ابھی دیکھنے کو باقی ہے۔


آج کا دن میرے لیے بے حد یادگار اور بابرکت رہا، جب میں اپنے عزیز ساتھیوں کے ساتھ ان مقامات کی زیارت کے لیے روانہ ہوا جن کا اسلامی تاریخ اور روحانی دنیا میں ایک منفرد مقام ہے۔جس کی زیارت کے لئے لوگ ایسے تڑپتے ہیں جیسا ایک پیاسا پانی کے لئے تڑپتا ہے اس چیز کا جائزہ میں نے تب لیا جب میں نے وہاں (ایم پی، ویسٹ بنگال) جیسی مشہور جگہوں سے ایک دو جماعت کو پایا۔ہمارا یہ سفر نانوتہ، تھانہ بھون اور گنگوہ جیسے مقامات تک ہی محیط تھا، جو نہ صرف اپنی تاریخی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ روحانی لحاظ سے بھی عظیم شخصیتوں کی یادیں لیے ہوئے ہیں۔

اس سفر کی سب سے خوبصورت بات میرے ساتھیوں کا خلوص اور عزت و احترام تھا، جو انہوں نے مجھے اس پورے سفر میں بخشا۔ ہر قدم پر ان کی محبت اور قدر دانی نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا۔ ہم سب ایک دوسرے کے لیے محبت اور بھائی چارے کے اس عظیم درس پر عمل پیرا تھے جو ان بزرگانِ دین نے ہمیں سکھایا ہے۔


(تھانہ بھون کا روحانی مرکز) 

ہمارا پہلا پڑاؤ تھانہ بون تھا، تھانہ بھون کا علاقہ ہمیشہ سے روحانی مرکز رہا ہے، جہاں حضرت تھانوی کی قبر مبارک اور انکے دیگر اہل خانہ بھی وہی مدفون ہے اور حضرت تھانویؒ کی شخصیت اس علاقے کی روحانی عظمت کی بنیاد ہے۔ حضرت تھانویؒ نے اپنی زندگی درس و تدریس اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے وقف کی تھی، اور ان کی تصانیف اور بیانات آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ مزار پر حاضری دیتے وقت دل میں عاجزی اور خشوع کا احساس پیدا ہوا۔ وہاں کی فضا میں ایک عجیب سی روحانی قوت محسوس ہوئی، جو انسان کو دین کی طرف مائل کرتی ہے۔ ہم سب نے وہاں کچھ وقت گزارا، ذکر کیا اور دعائیں مانگیں۔

اسکے بعد ہم حافظ ضامن صاحب شہید ( حافظ ضامن شہید ہندوستان کے ان عظیم مجاہدین میں سے تھے جو 1857ء کی جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ ایک عالمِ دین، حافظ قرآن، اور مجاہد آزادی تھے۔انہوں نے اپنے وقت کے بڑے علمائے کرام کے ساتھ مل کر برطانوی حکومت کے خلاف جدوجہد کی۔1857ء کی جنگ آزادی میں، جب ہندوستانیوں نے انگریزوں کے ظلم و ستم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، حافظ ضامن شہید بھی اس جد و جہد میں شامل ہوئے اور انہوں نے برطانوی حکومت کے خلاف جہاد میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے جنگی مہارت اور قیادت نے بہت سے مجاہدین کو منظم کرنے میں مدد دی۔ان کی بہادری اور قربانی کی داستانیں آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ ایک محبِ وطن اور دین دار انسان تھے جنہوں نے دین اور ملک کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا) کی قبر مبارک پر گئے جو کہ تھانوی قبرستان کے قریب پر ہی واقع ہے۔

(چند تواریخی چیزیں اور جگہیں جنکو میں نے قلم بند کرنا مناسب سمجھا) 

قبرستان کے بالکل باہر ہی ایک کنوان دیکھنے کو ملا، حضرت تھانویؒ کے یہاں کا یہ کنواں تاریخی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ دارالعلوم دیوبند سے منسلک حضرات اور خاص طور پر خانقاہِ تھانہ بھون کا نظام حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے دور میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ کنواں اس زمانے میں پانی کی فراہمی کے اہم وسائل میں سے ایک تھا۔


یہ وہی کنواں ہے جس سے حضرت تھانویؒ اور ان کے مریدین اور شاگردین پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ کنواں تاریخی اور روحانی طور پر اہم ہے، کیونکہ خانقاہ اور وہاں کی ہر چیز حضرت تھانویؒ کی سادگی اور دین کی خدمت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

کنواں کا صحیح دور تو حضرت تھانویؒ کے زمانے کا ہے، جو 20ویں صدی کے آغاز میں تھا، لیکن اس کی موجودگی آج بھی ہمیں ان کی یاد دلاتی ہے اور اس خانقاہی روایت کو زندہ رکھتی ہے۔

دوسری چیز جو آپکو نیچے دی گئی تصویر میں ایک سادہ اور پرسکون جگہ دکھائی دے رہی ہے جو ایک وسیع صحن پر مشتمل ہے، جس کے ساتھ ایک عمارت موجود ہے۔یہ وہ مقام ہے  جہاں لوگ بیٹھ کر دین کے مسائل سیکھتے تھے اور  حضرت تھانویؒ اپنے شاگردوں کو درس دیا کرتے تھے۔

تیسری چیز  وہ مقام دیکھنے کو ملا جہاں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنے مریدوں کو بٹھاتے تھے۔ ایسی جگہیں جہاں اولیائے کرام اپنے مریدوں کو تعلیم، تربیت، اور اصلاحی نصیحتیں دیتے تھے، ان کی خاص روحانی حیثیت ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک اور علمی خدمات کا بڑا حصہ تھانہ بھون میں ہی انجام پایا، اور اس جگہ کا ان کے مریدوں اور عقیدت مندوں کے لیے بے حد اہمیت رکھنا فطری بات ہے۔


اسکے بعد ہم خانقاہ تھانوی کی طرف روانہ ہوئے جہاں ایک ادارہ بھی قائم ہے وہاں ہمیں اکابرین کی خلوت گاہیں(تصویر میں ملاحظہ فرمائیے) اور دیگر تورایخی چیزیں دیکھنے کو ملی۔سب سے بہترین وہ جگہ دیکھنے کو ملی جہاں حضرت تھانوی، قاری محمد طیب صاحب کو چپل وغیرہ سیدھی رکھنے کے لئے رکھتے تھے انکی تربیت کے لئے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی زندگی اور خدمات پر لکھے گئے مضمون کے اختتام پر خلاصہ پیش کرتے ہیں، 

"حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی زندگی حق کی ترویج، روحانی اصلاح، اور امت کی رہنمائی میں بسر ہوئی۔ ان کی سادگی، اخلاص، اور علمی گہرائی نے ہزاروں افراد کی زندگیوں کو سنوارا۔ان کے اثرات آج بھی جاری ہیں، اور ان کے افکار کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو صحیح معنوں میں سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین

جاری................