مقاماتِ خمسہ کا سفر :.. قسط دوم



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


قسط:.. دوم


✍️:.... قیصر احمد لون

اس سے قبل ہمارا ایک سفر تھانہ بون کا تھا، تھانہ بون کا یہ سفر اثر کرنے والا سفر تھا جب ہم عصر پڑھکر مسجد تھانوی سے نکلنے لگے تو دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ یہ سفر کوئی معمولی سفر نہیں بلکہ کسی تڑپ کے لئے کیا جارہا ہے۔ جب ہم عصر کی نماز کے دوران بیٹھے تھے تو تصور تھا کہ اس سفر کے کم از کم جذباتی پہلو سے تو کچھ اثرات ہوں گے۔بالآخر ہم(مقامات خمسہ) کے جگہوں میں سے ایک اور جگہ نانوتہ کی طرف روانہ ہوئے نانوتہ پہنچے پہنچے سورج غروب ہو چکا تھا۔ جون ہی نانوتہ پہونچے مسجد کے باہر ہی ہم نے اپنی گاڑی پارک کی اور مغرب کی نماز ادا کی، اس وقت کا منظر واقعی دل موہ لینے والا تھا۔ غروب آفتاب کے وقت افق میں دھوپ کی آخری رنگت تھی اور ہر جانب سرمئی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مغرب کی نماز ختم ہونے کے فوری بعد چنداور شاندار مناظر پیش ہوئے یعنی نانوتہ کے مناظر، ایسے لگتا تھا کہ یہاں سب کچھ خود بخود اللہ کی حمد و ثنا کرنے میں لگا ہوا ہے۔اس کے بعد حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور انہوں نے نانوتہ کے مدرسہ میں حاضری دینے کا حکم فرمایا۔

جب ہم نانوتہ کی گلیوں میں چل رہے تھے تو اس قدیم شہر کی تعمیرات اور یہاں کے تمام رہائشیوں کی عاجزانہ فطرت مل کر ان کے چہروں پر ایک منفرد سکون بھی ہمیں حیران کر رہا تھا ۔ اس علاقے کے شہری گرم جوش اور با ادب نظر آئے اور ان کے لہجے میں ایک مذہبی جذبہ محسوس کیا جاسکتا تھا۔ راستے میں بچے، بوڑھے مرد اور نوجوان مسجد سے باہر آتے ہوئے نظر آئے، جو کہ اس بات کی گواہی تھی کہ واقعی یہ جگہ ایک اسلامی اور روحانی ماحول کی نمائندگی کرتی ہے۔

مغرب کی نماز کے بعد ہم مدرسہ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر چند تاریخی چیزیں دیکھنے کو ملی (جن کو بیان کرنے سے گریز کا حکم دیا گیا ہے) جو ماضی کی یادگار تھیں اور انہوں ہمیں بہت متاثر کیا جن سے اکابر کی یادیں تازہ ہو گئی۔اس کے بعد جب ہم مدرسہ میں داخل ہوئے اور حضرت والا نے ضیافت کے متعلق میٹھا وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا، وہ کھا کر طبیعت میں خوشگواری پیدا ہوگئی۔ تقریباً ایک دو گھنٹے تک وہاں مسلسل گفتگو چلتی رہی، جس میں مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی، گفتگو کے بعد حضرت نے ہمارا رخ لائبریری کی طرف کرایا، جہاں کئی اہم اور نایاب کتابیں موجود تھیں ہم نے وہاں سے چند ملفوظات اور سوانح کی کتابیں خریدیں یہ ایک علم سے بھرپور اور خوشگوار دن رہا۔

چونکہ حجۃ السلام علیہ الرحمہ کا مکان بہت پہلے کا ہے تصویر سے آپ اندازہ لگا سکتے ہے تقریباً وہ 3، 4 سالوں سے بند پڑا ہوا ہے کیونکہ دروازہ کھلنے ہی سے اسکے گرنے کے قوی اندیشے رہتا ہے، جس کی وجہ سے  ہمارا اسمیں داخل ہونا ممکن نہ ہوا. 

قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مکان اسلامی تاریخ کا ایک اہم ورثہ ہے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بر صغیر میں اسلامی علوم کے عظیم عالم، مفکر اور دیوبند (مکتب فکر) کے بانیوں میں سے تھے۔ انہوں نے 1866ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر اور دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔جس سے آپ حضرات بخوبی واقف ہیں، قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مکان نہ صرف ان کی یادگار ہے بلکہ اس بات کی نشانی ہے کہ کس طرح انہوں نے انتہائی سادگی اور اخلاص کے ساتھ اپنی زندگی گزاری، یہاں انہوں نے اپنے علمی سفر کا آغاز کیا اور اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا۔ ان کے علم و فضل، زہد و تقویٰ، اور خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں "حجۃ الاسلام" کا لقب بھی دیا گیا۔

یہ مکان آنے والی نسلوں کو ان کے علمی، فکری، اور روحانی ورثے کی یاد دلاتا ہے۔ قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا یہ مقام ان کے اخلاص اور سادگی کی علامت ہے اور لوگوں کے لیے ایک ترغیب کا ذریعہ بھی۔

اللہ پاک ان کو غریقِ رحمت عطا فرمائے اور عالم اسلام کی اس عظیم دینی درسگاہ کا فیض پورے عالم اسلام تک پہنچے. اس شام کی نانوتہ کی یادیں اور اس جگہ کی خاموشی ہمیشہ ہمارے دلوں میں نقش رہیں گی۔

جاری..........