کتاب:H.POP ،مصنف: کُنال پروہت پر اک نظر
- noukeqalam
- 273
- 01 Nov 2024
نام کتاب: H.POP
مصنف: کُنال پروہت
سن اشاعت: 2023 ء
ناشر: HarperCollinsIN
مبصر:..... احمد شبیر
سیاسی بیانیہ ترتیب دینے میں موسیقی کا ایک اہم اور طاقتور کردار رہا ہے۔ تاریخی طور پر موسیقی نے سیاسی احتجاج، سماجی تبدیلیوں اور عوامی شعور کو بیدار کرنے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ کے طور پر کام کیا ہے۔مختلف قوموں میں آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران گیتوں کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ گیت لوگوں کو متحد کرنے اور انہیں ان کے حقوق کے لیے لڑنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دوران موسیقی نے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔موسیقی کو سماجی اور سیاسی احتجاج کے لیے ایک طاقتور آلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔1960 کی دہائی میں امریکی سول رائٹس مؤومنٹ کے دوران، بوب ڈلن، جون بائیز اور دیگر گلوکاروں کے گیتوں نے عوامی جذبات کو آواز دی اور مظلوموں کی حمایت کی۔ مختلف حکومتیں بھی موسیقی کو اپنے پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ نازی جرمنی میں ہٹلر کی حکومت نے موسیقی کو قوم پرستی کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔اسی طرح امن اور محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے موسیقی کا سہارا لیا گیا ہے۔ 1960 کی دہائی میں ’’پیس اینڈ لو‘‘ مؤومنٹ کے دوران موسیقی نے جنگ مخالف نظریات کو فروغ دیا اور لوگوں کو امن اور محبت کے پیغام کی طرف راغب کیا۔ آج بھی موسیقی سیاسی بیانیہ کا ایک اہم حصہ ہے۔ گلوکار اور موسیقار مختلف مسائل جیسے کہ ماحولیاتی تبدیلی، نسلی انصاف اور صنفی مساوات پر اپنے گیتوں کے ذریعے آواز اُٹھاتے ہیں۔ مجموعی طور موسیقی نے ہمیشہ سیاسی تحریکوں میں لوگوں کو اکٹھا کرنے اور ان کے جذبات کو بیان کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پروپیگنڈا اور نفرت پھیلانے کے لیے بھی موسیقی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ نسلی اور وطنی تعصب پھیلانے والی طاقتوں نے اپنی تحریکات میں موسیقی کو اہم مقام دیا ہوا ہے۔نازی جرمنی میں ہٹلر نے نازی نظریات کو فروغ دینے کے لیے موسیقی کا سہارا لیا ہے۔روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار میں نفرت اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے موسیقی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایسے گیت اور نغمے بنائے گئے جن میں روہنگیا کو دشمن یا غیر ملکی قرار دیا گیا اور ان کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ امریکہ میں وائٹ سپریمسٹ گروہوں کی جانب سے بیوی مٹل یا راک موسیقی کا استعمال کیا گیا تاکہ نسل پرستی اور تفریق کے نظریات کو نوجوانوں میں پھیلایا جاسکے۔ جنگوں کی حمایت میں طاقتوں نے موسیقی کا استعمال کیا۔مثال کے طور پر، جب امریکی حکومت دوسری جنگ عظیم میں داخل ہونے پر غور کررہی تھی، 1940 کے ایک عوامی سروے کے مطابق صرف 35 فیصد جواب دہندگان امریکہ کے جنگ میں شامل ہونے کے حق میں تھے۔ اس کے بعد امریکی حکومت نے جنگ میں کودنے کے حق میں ان کے جذبات کو تبدیل کرنے کے لیے مقبول ثقافتی مواد تیار کرنے کے لیے مہارت کے ساتھ ایک جامع حکمت عملی تیار کی۔ اس نے ایسا کرنے کا ایک سب سے اہم طریقہ یہ نکالا کہ ہالی ووڈ میں ایک رابطہ دفتر کھولا گیا اور والٹ ڈزنی اور وارنربرادرز کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اپنی فلموں کے ذریعے لوگوں میں جنگ میں شامل ہونے کے لیے قائل کریں۔اس مہم نے کام کیا اور امریکہ اتحادیوں کی جنگی کوششوں میں شامل ہوگیا۔ 2014 ء کے بعد ہندوستان میں’’ہندوتوا‘‘ نظریات کو فروغ دینے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے کے لیے موسیقی کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ بالی ووڈ فلموں سے لے کر گلی کوچوں اور ریاستوں میں ایسے لوگ اور گروہ منظم کیے گئے جو اپنی موسیقی اور شاعری کے ذریعے سے نفرت کو ہوا دینے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے فن کا غلط استعمال کھلے عام کرتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ عناصراپنے ان کارناموں کو دیش بھگتی اور ملک کے تئیں خدمت اور وفاداری سے تعبیر کررہے ہیں۔زیر بحث کتاب اس موضوع پر لکھی گئی ہے اور اس میں اُس پورے نٹ ورک اور کام کے انداز سے پردہ ہٹایا گیا ہے جو ’’ہندتوا‘‘ طاقتیں ملک میں مسلمانوں کے خلاف موسیقی کا استعمال کرکے انجام دے رہے ہیں۔
’’ایچ پاپ‘‘ ہندوستانی منصف کنال پروہت کی انٹرویوزاورمخطوطات پر مبنی کتاب ہے جو 2023 میں شائع ہوئی ہے اور اس کتاب میں مصنف نے ’’ہندتوا پاپ اسٹارزکی خفیہ دنیا ‘‘ کا خلاصہ کیا ہے۔کتاب کے بارے میں معروف تاریخ دان رام چند گوہا نے کہا ہے:’’ پُراثر، انتہائی دلکش، روشن کرنے والا… ایک جراتمندانہ کام‘‘…مشہور جرنلسٹ راج دیب سردسائی نے کہا:’’مضبوط زمینی رپورٹنگ پر مبنی… خوفناک حد تک حقیقی، یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔‘‘… معروف منصفChristophe Jaffrelot جس نے ایوارڈ یافتہ کتابModi, s India لکھی ہے نے زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں لکھا ہے:’’ایک اصل اور اہم کتاب، جو یہ بتاتی ہے کہ سیاست سے ہٹ کر، ہندوتوا ہندوستان کی مقبول ثقافت کے ستونوں میں گھس کر ایک سماجی جہت حاصل کررہا ہے۔‘‘Our Hindu Rashtra نامی کتاب کے منصف اور معروف صحافی Aakar Patel کتاب کے بارے میں اپنی خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’یہ کام ہمیں چہرے دکھاتا ہے اور ہمیں اُن لوگوں کی آوازیں سناتا ہے جو اس جنگ کے فرنٹ لائن پر ہیں جو یہ قوم اپنے خلاف لڑ رہی ہے
کتاب میں منصف کے نوٹ اور تعارف کے بعد تین پارٹ ہیں، پہلا پارٹ ہریانوی نئی نویلی سنگر کوی سنگھ کی کہانی ہے جس نے2019 ء میں پلوامہ حملے کے بعد اپنی زہریلے الفاظ اور گانوں سے ’’ہندوتوا ‘‘ معاشرے میں شہرت پائی ہے اور اب بی جے پی اور ’’ہندتوا‘‘ طاقتوں کی چہیتی بن چکی ہیں ۔کوی سنگھ خود کوئی شاعر نہیں ہیں بلکہ اُن کو ہریانہ کے ایک موسیکار نے گود لیا ہے۔ انہوں نے ہی 2019ء میں پلوامہ حملے کے بعد ملک کے ’’ہندوتوا‘‘ جذبات بھڑکانے کے لیے کچھ شاعری لکھی جس کو اپنی منھ بولی بیٹی کوی سنگھ سے گوا کر ویڈیو بنا دیا جو راتوں رات وائرل ہوگا اور یوں کوی سنگھ ’’ہندتوا‘‘ ایکو سسٹم کی چاہتی بن گئی۔ کوی سنگھ سے زعفرانی کپڑے زیب تن کیے اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والی شاعری کو اسٹیجوں پرگانا شروع کردیا۔جس وائرل گیت سے اُن کو شہرت ملی اور مسلمانوں بالخصوص کشمیریوں کے خلاف نفرت بھرا ماحول پیدا ہوگیا وہ یوں ہے:
دشمن گھر میں بیٹھے ہیں تم کوس رہے ہو پڑوسیوں کو
جو چھری بگل میں رکھتے ہیں، تم مار دو نا اُس دوشی کو
اس دھوکے کے حملے میں جو اپنوں کا کام نہیں ہوتا
پلوامہ میں اُن ویروں کا یہ انجام نہیں ہوتا
اسی طرح رام مندر پر انہوں نے یہ نظم پڑھی ہے:
اگر چاہو مندرتو تجھے دِکھا دیں گے
تجھ کو تیری اوقات بتا دیں گے
اِدھر اُٹھی جو آنکھ تمہاری
چمکے گی تلوار کٹاری
خود اس اس درتی کو نہلا دیں گے
ہم تجھ کو تیری اوقات بنا دیں گے
وندے ماترم گانا ہوگا
ورنہ یہاں سے جانا ہوگا
نہیں گئے تو جبراً تجھے بھگا دیں گے
ہم تجھ کو تیری اوقات بتا دیں گے
کوی سنکھ کے ایسے بھی گیت ہیں جن میں وہ حکومت کو مشورا دے رہی ہیں کہ ملک میں آبادی کنٹرول کرنے کے لیے سخت قانون بنایا جائے تاکہ مسلمانوں کے ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے منصوبے کو شکست دی جاسکے۔
دوسرا پارٹ یوپی کے رہنے والے’’ راشٹروادی‘‘ اور ہندوتوا خیالات کے شاعر کمل اگنی پر مشتمل ہے جو مختلف مشاعروں میں لوگوں کی بھیڑجمع کرکے اپنی شاعری کے ذریعے سے اُن کے دلوں میں مسلمانوں، لبرل اور سیکولر طاقتوں کے خلاف نفرت بھر رہے ہیں۔انہیں ’’ہندوتوا‘‘ طاقتوں نے اُن کی شاعرانہ صلاحیتوں کے وجہ سے استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کیے ہیں۔ کمل اگنی کے رِگ رِگ میں مسلم دشمنی بھری ہوئی ہے۔ تاریخ کو مسخ کرکے مسلم حکمرانوں اور مسلمانوں کی تصویر خطرناک بناکر عوام کے سامنے پیش کرنے کی مہارت اِنہیں بخوبی حاصل ہے۔کتاب سے ایک مثال پیش ہے:
’’فروری ۲۰۲۲ء میں یوپی انتخابات کے پہلے مرحلے پر کمل اگنی کو ویشوی ہندو پریشد کے ایک سینئر لیڈر کی کال آتی ہے۔ وہ اُنہیں کہہ رہے ہیں کہ انتخابات کے پہلا اور دوسرا مرحلہ ۱۰؍ اور۱۴؍ فروری کو ہے۔ یہ ہمارے لیے مشکل ترین ہیں۔یہ انتخابات یوپی کے ویسٹرن حلقوں میں ہورہے ہیں جہاں گنے کی پیداوار زیادہ ہے۔اور جہاں جاٹ طبقے کے سرمایہ دار لوگ گنے کی ذمینداری کرتے ہیں۔اور حال ہی میں جو کسانوں کا ملک گیر احتجاج دسمبر۲۰۲۱ء میں ہوا ہے اس میں ان علاقوں کے جاٹ پیش پیش تھے۔ بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر رکیش ٹیکیٹ بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک سال کے احتجاج کی وجہ سے یہاں لوگوں میں بی جے پی کے خلاف غصہ ہے۔وی ایچ پی لیڈر نے کمل سے کہا کہ اس نفرت کو ختم کرنے کے لیے اور یوگی کو مشکل وقت سے نکالنے کے لیے آپ مدد کیجئے۔وضح رہے ویسٹ پوپی میں جاٹ اور مسلمان ہمیشہ باہمی بھائی چارہ بنا کے رکھے تھے اور ایک دوسرے کے کاروبار اور زرعی کام کاج سے منسلک تھے۔ یہ بھائی چارہ ۲۰۱۳ء تک قائم تھا۔ ۲۰۱۳ء میں ہندوتوا طاقتوں نے شاملی اور مظفر نگر میں فسادات بھڑکائے ، جس کی وجہ سے جاٹ اور مسلمانوں کا صدیوں پرانا بھائی چارے میں دیوار کھڑی ہوگئی اور اسی اختلافات میں۲۰۱۴ء میں بی جے پی یہاں سے پہلے پارلیمانی انتخابات اور پھر ریاستی انتخابات جیت گئی۔ ۲۰۲۲ء سے مسلمانوں اور جاٹ طبقے کے لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ ان کے درمیان دوریاں نقصان دہ ہیں اور وہ ایک مرتبہ پھر نزدیک آگئے۔ ہندوتوا طاقتوں کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہے اور پھر کسانوں کی ناراضگی نے مزید ووٹروں کو بی جے پی سے دور کردیا۔ اب اس نارضگی کو بی جے پی کے ساتھ محبت میں تبدیل کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے کمل اگنی کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔وی ایچ پی لیڈر سے کمل سے کہا کہ وہ جاٹ کے اباؤو اجداد میں سے تین اُن کے ہیروز پر شاعری لکھیں:گوکھل جاٹ، جوگراج گجر اور رام پیاری گجری… کمل میں کم ٹائم ہونے کی وجہ سے اِن میں سے جوگراج گجر کا انتخاب کیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تیمور کے حملے کے وقت اُن کے خلاف جم کرلڑے۔کمل نے چند دنوں کے اندر اندر اس کریکٹر پر ایک وڈیو تیار کرکے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔
تیمور لنگ کی آندھی ہندو دیپ بجھانے والی تھی
پیاسی تلواریں دلی سے آگے جانے والی تھی
ہردوار کے مندر توڑے جانے کی تیاری تھی
لیکن ان پر ویر ہندو وں کی سینائیں بھاری تھی
سارے سینک دیش دھرم پے لڑ جانے کے لائق تھے
جوگراج سنگھ گجران کے ادبدھ سینا نائیک تھے
اسی لیے ویر گجرو جاگو،یہاں اک دم صحیح مہورت ہے
اس دیش دھرم کو آج تمہاری، پھر سے بڑی ضرورت ہے
وویڈیو کو 7.7 ملین فالورز کے ساتھ فلمی ادکارہ کنگنا رناوت نے اپنے فیس بک پیج پر شیئر کیا ہے۔ اور پھر ہندتوا ودی ایکو سسٹم منظم ہوا اور ایک دم کروڑوں لوگوں نے ویڈیو کو نہ صرف دیکھا، بلکہ پھیلایا اور اس کے ذریعے سے اُن کے جذبات ابھر کر سامنے آگئے یوں یوگی کے لوگ ان نشستوں سے کامیاب ہوگئے۔
تیسرا اور آخری حصہ سندیب دیو کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جو ہندو تہذیب کو بچانے اور مسلم تہذیب سے جنگ لڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔سندیب اپنے آپ کو ایک سیاسی تجزیہ کار، ایک تحقیقاتی صحافی، ہندو مذہب کے ایک روحانی اور اخلاقی تعلیمات کی جانب رہبری کرنے والا شخص قرار دے رہا ہے۔سندیب کے خیال میں ہندوؤں کے ساتھ مسلمان ایک تہذیبی جنگ لڑ رہے ہیں جس کے بارے وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے سے لوگوں کو باخبر کررہے ہیں۔46 ؍سال کے سندیب نے اپنی ایک یوٹیوب چینل 'India Speaks Daily' نام سے کھولی ہے۔ چینل پر سندیب کے4 ؍لاکھ30 ؍ہزار فالورز ہیں اور وہ اس قدر تسلسل کے ساتھ پروگرام چلارہے ہیں کہ اِنہیں سالانہ۲۵؍لاکھ کی آمدنی اس چینل سے حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ سندیپ نے ’’Kapot ــ" کے نام سے ایک پبلشنگ ہاؤس بھی قائم کیا ہے جہاں سے ہندوتوا پروپیگنڈا کتابیں ، کتابچے اور فولڈرس شائع کرتے ہیں۔جن سے سخت گیر نیشنلزازم کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔اس پبلشنگ ہاؤس سے جو کتابیں شائع ہوئیں ہیں اُن میں
(۱)۔ Unmasking the realities of Abrahamic religions ، (۲)۔Love Jihad or Predatory Dwah? shocking Fround Stories of Conversition ،(۳)۔Heroic Hindu Resistance to Muslim Invaders ، اور(۴)کون کہتا ہے اکبر مہان تھا؟
جیسی کتابیں شامل ہیں۔سندیب پورے ملک کے شہروں اور قصبوں میں ایک ہزار کے قریب بک سٹورز اور لابیئرئز قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔سندیب کا خیال ہے کہ مغرب کے کارپوریٹوروں کی ایک قلیل تعداد یہ طے کرتی ہے کہ ہندوستانی کیا پڑھیں اور کیا نہ پڑھیں اور ہمیں اس چیز کو تبدیل کرنا ہے۔Kapot نے۲۰۲۲ء میں 2200 ٹایٹل اور25000 کتابیں فروخت کی ہیں۔سندیب نے آر آر ایس کے ایک سابق چیف ایم ایس گولوالکر کی سوانح حیات’’ہمارے گروجی‘‘ لکھی ہے ۔ اُنہوں نے گجرات فسادات پر بھی ہندوتوا بیانیہ سامنے رکھنے کے لیے 2012 میں ایک کتاب لکھی ہے۔
آج کے دورمیں انسانیت کے خلاف زہر پھیلانے میں سب سے زیادہ یوٹیوب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بالخصوص برصغیر میں نفرت کو بڑھاوا دینے میں اس پلیٹ فارم کا خوب استعمال ہورہا ہے۔ایک عالمی غیر سرکاری تنظیمFirst Draft ، جو سوشل میڈیا پر disinformation کو Track کرنے کا کام کرتی ہے نے2021 ء میں ایک ریسرچ شائع کی ہے جس میں پایا گیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سب سے زیادہ زہر یوٹیوب سے پھیلایا جارہا ہے ۔اسی طرح جون 2022 میں نیویارک یونیورسٹی کے اسٹرن سینٹر فار بزنس اینڈ ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان میں یوٹیوب کا سب سے زیادہ اور پریشان کن حد تک غلط استعمال ہورہا ہے۔ ہندوستان میں450 ملین یوٹیوب صارفین ہیں اور دنیا کے کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ ہے۔
سندیب ہندوازم کے خلاف کلچرل یلغار کو روکنے کی لڑائی لڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔2019 ء میں انہوں نے اُسی طرح کے پانچ خطرات کی نشاندہی کی ہے جس طرح صدیوں پہلے آدی شنکر آچاریہ نے بدھ ازم کے پھیلاؤ کے وقت ہندوازم کو بچانے کے لیے پانچ خطرات کے خلاف محاذ آرائی کی۔ اُن کے نزدیک ہندوازم کو جن پانچ خطرات سے نپٹا ہو گا اُن میں(۱)۔مُدیا(شراب)،(۲)۔ممسا(گوشت)،(۳)۔متسیا(مچھلی)، مُدرا(بھنا ہوا اناچ) اور مہتھنا(جنسی تعلق) شامل ہیں۔بقول آدی شنکر آچاریہ کے:’’ یہ جو پنچا مکاراتھے، اس نے سناتن کو اتنا نشٹ کردیاتھا، اتنا دُسٹ کردیا تھا،کہ اس سے سناتن سماج کو بچانے کے لیے، باہر نکالنے کے لیے بہت سارا کام کرنا پڑا۔جدید دور میں اِسی طرح کے ’’پنچامکارا‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے سندیب کہتا ہے کہ’’مسیحا واد‘‘(Missionaries) ہندو سماج کو تباہ کرنے میں پہلے نمبر ہے۔اس لیے غیرسرکاری عالمی تنظیموں کے خلاف ملک بھر ایک مہم چھیڑی گئی۔دوسرا نمبر پر ’’مارکس واد‘‘یعنی Lefitistکو خطرہ کہا گیا ہے ۔’’ملک دشمنی عناصر‘‘ جن کو آتنگ واد،ٹکڑے ٹکڑے گینگ، اربن نکسلس وغیرہ نام دیا گیا ہے۔Macualay Waad یعنی جن پر انگریزی کلچر کا بھوت سوار ہے جو انگریزی میں بات کرتے ہیں، انگریزی میں سوچتے ہیں اورایسے لوگ انڈیا کوWesternize کرنے کا کام کرتے ہیں۔’’محمد واد‘‘ یعنی مسلمان جو لو جہاد کے ذریعے سے ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر اُن کو حاملہ کرکے ملک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھاتے ہیں اور یوں آہستہ آہستہ ہندو اقلیت بنتے جارہے ہیں۔سندیب نے اس سوچ کو اپنی دو کتابوں"A Quiet Case of Ethnic Cleansing: the Murder of Bangladesh,s Hindu," اور"Bleeding India: Four Aggressors, Thousand Cuts" میں کھل کرپیش کیا ہے۔