اِسٹارٹ اَپ نیشن (اسرائیل کی معاشی چمتکار کی کہانی)



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


     اِسٹارٹ اَپ نیشن
(اسرائیل کی معاشی چمتکار کی کہانی)

نام کتاب:   START UP NATION (The Story of Israels Economic Miracle)

مصنفین: DAN Senor and Saul Singer
سال اشاعت: ۲۰۰۹ء


✍️:... . احمد شبیر /سرینگر 

وضاحتی نوٹ :..... یہ کتاب کا تبصرہ نہیں ہے بلکہ کتاب کا خلاصہ ہے

تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان استفادہ حاصل کر

سکیں۔ ایک چھوٹی سی قوم جس نے ہماری پوری

ملت سے ٹکر لی ہے، آخر اس کی طاقت کا کیا راز

ہے؟ اس کتاب سے اس کا آئیڈیا ہو جاتا ہے۔

حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے اور اس گم

شدہ میراث کو پانے کے لیے ہمیں ہمارے

دشمنوں کی حکمت عملیوں کو سمجھنے کی ضرورت

ہے اور اسی جذبے کے تحت کتاب کا خلاصہ پیش

خدمت ہے۔ احمد شبیر 

یہ کتاب دو معروف امریکی تحقیقی قلمکاروںDan Senor ؍اور Saul Singer نے تحریر کی ہے۔ ڈین سینرامریکہ کے نیوریارک شہر کا رہنے والا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے علاوہ ہاورڑ بزنس اسکول میں پڑھائی کی ہے۔ موصوف امریکی پالیسی سازوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بالخصوص عرب ممالک کی سیاست، پالیسی اور تجارت کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ امریکی حکومت میں سینر فارن پالیسی ساز رہے ہیں۔یہ عراق میں امریکی حکومت کے سب سے بڑی سیول آفیشلز میں سے ایک رہے ہیں۔انہیں پنٹاگن نے سب سے بڑے سیول اعزاز سے بھی نوازا ہے۔وال اسٹریٹ جرنل، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ویکلی اسٹنڈاڈ اور ٹائم میگزین میں اِن کے تجزیاتی مضامین اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں۔

Saul Singer ؍اسرائیلی قلمکاراور سابق ایٹوریل پیج ایڈیٹر Jerusalem Post رہے ہیں۔ انہوں نے ایک اور کتابJihad: Israels Struggle and the World after 9/11 بھی لکھی ہے جس کے بارے میں معروف تاریخ نویسMichael Oren کہتے ہیں کہ عرب دنیا میں دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کو یہ کتاب پڑھ لینی چاہیے۔سِنگر 1994 میں اسرائیل منتقل ہونے سے قبل یہ امریکی اسٹیٹ کانگریس کے خارجی اُمور و سینٹ بینکنگ کمیٹی کے ایڈوائزر رہ چکے ہیں۔

اسٹارٹ اَپ نیشن اسرائیلی ریاست کے قیام سے لے کر آج تک کی اس سرزمین کو بنجر سے زرخیز بنانے، معاشی اعتبار سے اِس کو پہلی پوزیشن پر لاکھڑا کرنے نیز دفاعی اعتبار سے پانچ عرب ملکوں کے گھیرے میں ہونے کے باوجود اس حد تک مضبوط بنانے کی کٹھن تاریخ اور تاریخی اقدامات پر مشتمل کتاب ہے ۔  کتاب کا ہر پنّا اسرائیلوں کی تجارتی ذہنیت اور اس کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی حیران کن اقدامات کی کہانیوں پر مبنی ہے۔صحراؤں پر مشتمل اور قدرتی وسائل سے محروم یہ چھوٹا سا ملک کیسے ٹیکنالوجی پر عبور پاکر زرعی ترقی میں عالمی لیڈر کی حیثیت اختیار کرگیا ؟کیسے چھ دن میں اِنہوں نے عربوں کو شکست سے دو چار کردیا؟ کیسے اِنہوں نے اپنے رقبے سے تین گنا زیادہ زمین ایک ہی جنگ میں عربوں سے چھین لی؟ کیسے نئے آئیڈیازکو یہاں حد سے زیادہ پذیرائی مل جاتی ہے؟ کیسے آئیڈیاز کو حقیقت کا روپ دیاجاتا ہے؟ ان سب سوالات کا جواب اس کتاب میں موجود ہے۔

برطانیویColonial دور کے خاتمے کے بعد۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء کو The Declaration of The Establishment of the State of Israel کے تحت اس ریاست کا قیام عمل میں لایاگیا۔۱۹۴۸ء میں جس وقت اسرائیل وجود میں آگیا تھا اُس وقت اس کی آبادی806000 نفوس پر مشتمل تھی جو سات دہائیاں گزرجانے کے بعد71 ؍لاکھ تک پہنچ گئی۔ آبادی میں اضافے کی یہ رفتار ابتدائی دو دہائیوں میں دیگر یورپی ممالک سے50 ؍گنا زیادہ رہی ہے۔ اس میں دنیا بھرسے یہودیوں کا وہاں ہجرت کرنا، نیز اسرائیلوں کا دیگر ممالک میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے غریب اور مفلس یہودی کو مختلف فوجی مشنز کے تحت وہاں سے نکال کر اسرائیل منتقل کرنابنیادی سبب رہا ہے۔مہاجرین یہودیوں کو اس نئے ملک میں کم وقت میں جمع کرنے کے بارے میں اسرائیلوں کا ماننا ہے کہ اگر دنیاوی اصولوں کے مطابق ہم اس حوالے سے پہلے پلاننگ کرتے ، پھر لوگوں کو لے آتے تو ہمیں کم از کم اتنے لوگوں کو جمع کرنے میں دہائیاں لگ جاتی۔1949-50 میں اسرائیلی گورنمنٹ آپریشن میجک کارپٹ کے تحت یمن سے 49  ہزار یہودیوں کوAirlift کرنے میں کامیاب ہوگئی۔رومانیہ میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والے یہودیوں کو وہاں سے اسرائیل منتقل کرنے کے لیے وہاں کے آمرNicolac Ceausescu نے ان مفلس، غریب اور بظاہر فالتو یہودیوں کو اسرائیل بھیجنے کے عوض پیسوں کا تقاضا کیا ۔ اسرائیلی حکومت نے 1968 اور1989 کے درمیان 40577 یہودیوں کو 112,498,800 ڈالر ادا کرکے رومانیہ سے آزاد کراکے اپنے ملک میں بسایا۔ یعنی ایک آدمی کے عوض 2772 ڈالر ادا کیے گئے۔رومانیہ کے ان گئے گزرے یہودیوں کو کم وقت میں پہلے Hebrowزبان سکھائی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی مہاجر یہودی اسرائیل کی ترقی کے اہم ستون ثابت ہوئے۔  

Gidi Grinstein سابق وزیر اعظم Ehud Barak کے مشیر رہ چکے ہیں اور سنہ ۲۰۰۰ء؁ میں وہ اُس اسرائیلی ٹیم میں شامل تھے جنہوں نے کیمپ ڈیویڈ میں یاسرعرفات اور بل کلنٹن کے ساتھ مذاکرات کیے تھے ۔ اُنہوں نے اسرائیل میں The Reut Institute نام سے اپنا ایک تھنک ٹینک قائم کیا ہواہے جو یہ راہیں تلاش کرتا ہے کہ کیسے اسرائیل ٹاپ50 امیر ترین ممالک میں شامل ہوگا۔ان کا ماننا ہے کہ کسی بھی ملک میں مہاجر سب سے زیادہ کامیابEntrepreneurs ثابت ہوجاتے ہیں کیونکہ جولوگ سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں آباد ہوجاتے ہیں وہ اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنے میں زیادہ سے زیادہ رسک لینے سے کبھی نہیں کتراتے ہیں۔

٭… اسٹارت اَپ نیشن سے اسرائیل کے حوالے سے پانچ اہم باتیں اخذ ہوتی ہیں۔

(۱)۔Fail, Fail Fast, Fail forward …اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں فیل ہونے پر تھپکی لگائی جاتی ہے۔ کوئی بھی کمپنی اسٹارٹ کرنے میں اگر انسان فیل ہوجائے تو یہاں اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پہلی بار فیل ہوجانے پر شاباشی، دوسری بار پھر سے حوصلہ افزائی یہاں تک کہ وہ فیل ہوتے ہوتے کامیاب ہوجاتا ہے۔ اسرائیلیFailure کو Constructive Failure یا Intelligent Failure کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جب تک آپ بہت سارے Failures کو برداشت نہیں کریں گے آپ کے لیے صحیحInnovation حاصل کرنا ناممکن ہے۔ایک Global Management گروپ(Monitor Group )کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلیوں کی ذہنیت یہ ہے کہ جب Start up Entrepreneurs کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ملک کی ترقی اور مارکیٹ میں انقلاب برپا کرتے ہیں اور اگر فیل ہوجائیں گے تو بھی یہ اس فیلڈ کے دوسرے لوگوں کو مسابقتی مقابلے کے لیے مجبور کرتے ہیں جس وجہ سے وہ زیادہ محنت کرکے ملک کو فائدہ پہنچانے کا سبب بن جاتے ہیں۔

(۲)۔Strong Focus on Research and Development :…یہ ملک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کو انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات فراہم کرکے اُنہیں اپنے ملک میں R&D سنٹرس قائم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کمپوٹر کی دنیا میںIntel، آئی بی ایم، Cisco ایسے کمپنیاں ہیں جنہوں نے پہلی بار امریکہ سے باہر اسرائیل میںR&D سنٹرس قائم کیے ہیں اور آج حالت یہ ہے کہ ان بڑی بڑی کمپنیوں کے بیشتر پروڈکٹس اسرائیل میں  ہی تیار کیے جاتے ہیں۔عراق وار کے دوران جب ہر جانب میزائل برس رہے تھے اسرائیلوں نے یہ فیصلہ لیا کہ وہ کسی بھی صورت میں کسی کمپنی کو بند نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی دنیا بھر سے کسی آرڈر کو منسوخ ہونے دیں گے۔ حد یہ ہے کہ دوران جنگ اسرائیلی انجینئروں نے کمپنیوں کےR&D سنٹرس میں ڈبل شفٹ میں کام کیا ہے۔

(۳)۔ Strong Focus of Education and Mind Power : تعلیم کو یہاں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس ملک نے تعلیم کو تحقیق اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ کر انقلاب برپا کیا ہے۔ دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیز اسرائیل میں موجود ہیں۔ سب سے زیادہ انجینئرز ، ڈاکٹرز اور انفامیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ین اسرائیل میں پیدا ہوتے ہیں۔اسرائیلی دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے لوگ ہیں۔ اسرائیلی انٹرنٹ پر سب سے زیادہ ٹائم صرف کرنے کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے۔ موبائل فونزاس ملک میں125 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں ۔ مطلب 25 ؍فیصد لوگوں کے پاس ایک سے زیادہ موبائل فونز ہیں۔ اس ملک میں دس سال کی عمر کے بعد ہربچے کو موبائل فراہم کیا جاتا ہے اور اس عمر کے ہر بچے کی رسائی لپ ٹاپ تک ہے۔

(۴)۔Chutzpah : یہ اصطلاح اسرائیلیوں کی روز مرہ زندگی کا حصہ ہے۔ اس کو یہ لوگ ناقابل یقین ہمت، گستاخی اورمغروریت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔(Incridible guts, Presumption, plus Arrogance) …اسرائیل قوم کو ہی Arrogant مانا جاتا ہے۔ یہ منھ پر بات بولنے والے لوگ ہیں، یہ ہر بات میں ٹانگ آڑانے والے ہیں، سوال کھڑا کرتے ہیں، اسرائیلی لوگوں کو جہاں بھی پیچھے رہ جانے کا خوف لاحق ہوجائے گا وہاں وہ سوال کرے گا۔اِسی طرز عمل کو اسرائیلی Chutzpah کہتے ہیں۔باہر کا شخص اسرائیل میں ہر جگہ Chutzpah دیکھے گا۔ راستے میں، یونیورسٹی میں، طلباء کا پروفیسر کے سامنے، ملازم اپنے آفیسر کے سامنے،عام فوجی اپنے کمانڈروں او رجنرلوں کے سامنے، عام انسان منسٹروں کے سامنے سوال کھڑا کرے گا۔اسرائیلی اپنے بارے میں فخر سے کہتے ہیں کہ ہم Displined نہیں ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابتداء سے ہی چلینج کرنا، سوال پوچھنا، مباحثہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ150 ؍امریکیوں کے مقابلے میں5 ؍ اسرائیلیوں کو سنبھالنا مشکل ہے کیونکہ وہ آپ کو قدم قدم پر چلینج کریں گے۔ شروعات اس سے کریں گے کہ: آفس میں… آپ میرے منیجر کیوں ہیں؟… یونیورسٹی میں… آپ پروفیسر کیوں ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

(۵) Mandatory Military Service for 3 Years : اسرائیل میں اٹھارہ سال کی عمر میں ہر انسان کو لازمی طور پر ملٹری سروس میں جانا ہوتا ہے۔ یہ سروس کم سے کم تین سال جبکہ زیادہ سے زیادہ نو سال پر محیط ہے۔ اس سے اسرائیلوں میں دیش بھگتی، ذمہ داریوں کا احساس ، کام کرنے اور سیکھنے کا ڈھنگ، فیصلہ لینے کا حوصلہ اور زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے جانکاری اور مہارت حاصل ہوجاتی ہے۔ یہی سروس اسرائیلیوں کوMulti Tasking انسان بنا دیتی ہے۔ ہر اسرائیلی زندگی کے کئی شعبوں کا ماہر ہوتا ہے۔ 

کتاب کے اہم اقتباسات:

٭…اسرائیل کے قیام کا بیج دنیا بھر میں در بددر بھٹکنے والے جلائے وطن یہودی کے سوچ کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ یہ جلاوطنی دو ہزار سال پر محیط تھی۔ بغیر وطن کے یہودی اپنے وطن کے لیے ہمیشہ سے دعا گو رہتے تھے اور پھر اُن کا یہ خواب1948 میں شرمندۂ تعبیر ہوا ہے۔

٭…مصر سے اپنے وطن اسرائیل کی جانب ہمارا سفرصحراؤں سے شروع ہوکر صحراؤں پر ہی ختم ہوا تھا۔ ہمارے حصے میں زمین کا ایک چھوٹاٹکڑا آگیا ہے جس میں نہ ہی سرسبز و شادابی تھی اور نہ ہی کسی قسم کے کوئی قدرتی وسائل۔ مطلب غریب لوگ غریب سرزمین پر آگئے ۔ہمارے پاس صرف انسان (Human Resource)تھے۔ یہی ہماری دولت تھی اور یہی ہماری اُمید۔

٭… اسرائیل کے سابق وزیر اعظمBen Gurion نے کہا ہے:تمام ماہرین اُن ہی چیزوں کے ماہر ہیں جوآج کی دنیا میں ہیں اورمستقبل میں کیا ہوگیا کوئی اس چیز کا ماہر نہیں ہے۔مستقبل کا ماہر بننے کے لیے لازمی ہے کہ تجربے  سے آگےسوچ  کو رکھا جائے۔

٭… ۲۰۰۷ءمیں اسرائیل میں کچھ لوگوں نے پہلی بیٹری پر چلنے والی گاڑیوں کا منصوبہ ملک میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے مالکان کے سامنے رکھا۔ جس میں دلیل یہ دی گئی کہ اسرائیل کو دنیا کا پہلا ملک بنایا جائے جوOil Independent ہو۔پہلے مرحلے میں وہ راستے تلاشنے ہوں گے جس کے ذریعے سے گاڑیاں بغیر پیٹرول کے چل سکیں۔یہ آئیڈیا عربوں کی جانب سے اسرائیل کو کبھی تیل کی سپلائی معطل کرنے کے خدشے کا نتیجہ تھا اور اس کے روح رواں Better Place نامی کمپنی کے مالک آگاسی کا کہنا ہے کہ : ہمارے دشمنوں نے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں دشمنی کی بہترین لبارٹری فراہم کی ہے۔بیٹری پر چلنے والی گاڑیاں اِسی آئیڈیا کے نتیجے میں سب سے پہلے اسرائیل میں استعمال ہونے لگی ہیں۔ اس کے لیے اِنہوں نے مخصوص علاقوں میں بیٹری سے چلنے والی چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنی شروع کی ، اسی کے ساتھ اُنہوں نے ان علاقوں میں پیٹرول پمپوں کی جگہ ایسے پارکنگ ائیرایاز بنائے ہیں جہاں سے گاڑیاں بیٹریاں چارج یا پھر تبدیل کرسکتی ہیں۔اس آئیڈیا کا مقصد محض ایجاد نہیں تھا بلکہ اپنے روایتی دشمن عرب دنیا جو تیل کی دولت سے مالا ہے کی اقتصادی لحاظ کمزور کرنا بھی تھا۔

٭…Bostons Battry Ventures کے Investor ،Scott Tobin نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ : دنیا کاہر دوسرابڑا آئیڈیا اسرائیل سے آئے گا۔

٭…۲۰۰۸ء میں اسرائیل کی Per Capita Venture Investment ؍امریکہ سے2.5 گنا زیادہ تھی۔دیگر یورپی ممالک سے ۳۰؍گنا، چین سے ۸۰؍گنا جبکہ انڈیا سے ۳۵۰؍گنا زیادہ تھی۔ اسرائیل کس قدرنئے پروجیکٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 7.1 ملین والی آبادی کے اس ملک میں آج سے دس سال پہلے ۲؍بلین ڈالرVenture Investment کے لیے مختص رکھے جاتے تھے جبکہ اُس زمانے 145 ؍ملین آبادی والے امریکہ میں Venture Investment کے لیے 61 ؍بلین ڈالر مختص تھے۔

٭… دنیا کے ہر 1844 اِسٹارپ اَپس میں سے ایک Start up اسرائیل کا ہوتا ہے۔National Association of Securities Dealers Automated Quotation(NASDAQ) کی فہرست میں سب سے زیادہ اور بہترین کمپنیاں اسرائیل کی ہیں۔۲۰۰۹ء میں اس لسٹ میں61 ؍کمپنیوں کے ساتھ اسرائیل سرفہرست تھا، دوسرا نمبر پر 45 ؍کمپنیوں کے ساتھ کینڈا ہے جبکہ صفر کمپنیوں کے ساتھ UAE فہرست کے آخر میں درج تھا۔

٭…Philips Medical کے سینئر صدر نے چند سال قبل اسرائیل کا دور کرنے کے بعد کہا ہے کہ :اسرائیل میں دو دن قیام کر کے مجھے تحقیق اور Inovation کے اتنے مواقعے دیکھنے کو ملے جتنے میں نے ایک سال کے اندر پوری دنیا میں نہیں دیکھے تھے۔برٹش ٹیلی کام کے نائب صدر Gary Shaiberg نے اسرائیل کے تحقیقی مزاج اور آئیڈیاز کو دیکھ کر یہ ریمارک پاس کیا تھا کہ:… اسرائیل میںRecycled Ideas کے بجائے Inovative Ideas کی بہتات ہے۔ 

٭… کہا جاتا ہے جہاں دو یہودی ہوتے ہیں وہاں تینOpinions ہوتی ہیں۔ اسرائیلی اسےFrankness کہتے ہیں اور اِسے Deadlock کی صورت میں باہر نکلنے کی راہ قرار دیتے ہیں۔

٭…Intel Isreal کے بانیDov Froman کا اسرائیلیوں کے بارے میں کہنا ہے کہ اسرائیلی خوف کے باوجود رسک لے لیتے ہیں ۔ اُن کے مطابق کھو جانے کا خوف کبھی کبھی حاصل کرنے کی اُمید سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔Fear of Loss often proves more powerful than the hope of gain 

٭…Mike Leigh نے اپنی کتابTwo Thousand Years میں اسرائیلیوں کے ہر کام کو ممکن بنانے کے جذبے کی دلیل میں ایک کہاوت درج کی ہے جس میں کہا گیا کہ: چار لڑکے گلی کی نکڑ پر بیٹھے گپ شپ میں مشغول تھے۔ امریکی، روسی، چینی اور اسرائیلی… ایک رپورٹر وہاں آیا تو اِس نے لڑکوں کے اس گروپ سے سوال کیا کہ Excuse Me آپ کیMeat Stortage کے بارے میں کیاOpinion ہے۔ جواب میں امریکن لڑکے نے کہا کہShortage کیا ہوتی ہے؟ چینی نے کہاOpinion کیا ہوتی ہے ، روسی نے کہا Meat کیا ہوتا ہے اور اسرائیلی نے کہاWhat is Excuse Me ۔

٭… اسرائیل کے وجود میں آنے کے صرف ۱۹؍سال بعد یعنی۱۹۶۷ء میں عرب ورلڈ کے ساتھ اُن کی جنگ چھڑ گئی۔ایک جانب جنگ میں براہ راست مصر، شام اور جارڈن کی منظم فوج شامل تھی اور پوری مسلم ورلڈ کا اُن کو سپورٹ حاصل تھا ،دوسری جانب صرف دو دہائیاں قبل وجود میں آنے والی ایک چھوٹی سی ریاست۔صرف چھ دن میں حیرت انگیز طور پراسرائیل نے عرب فوج کو نہ صرف شکست سے دوچار کردیا بلکہ اسرائیل نے اپنی سرحدوں کو بھی پھیلانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اسرائیل نے شام سے گولان پہاڑیاں،ویسٹ بینک اور ایسٹ یروشلم جارڈن سے ، غزہ پٹی اورSinai Penisula مصر سے چھین کر دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

٭… معروف اسرائیلی تاریخ دانMichael کے مطابق دنیا بھر کی افواج میں سے اسرائیلی فوج کے کیپٹن کو میدان جنگ میں فیصلہ لینے کی سب سے زیادہ آزادی دستیاب ہوتی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں کیپٹن کی رینک تک کے آفیسر23 ؍سال کی عمر سے کم کے ہوتے ہیں۔ جہاں دنیا کی دیگر قومیں اس عمر کے لوگوں کو کچی عمر کا قرار دے کر اُن پر بڑی ذمہ داریاں عائد نہیں کرتے ہیں وہیں اسرائیلی فوج میں بڑے بڑے جنگی فیصلہ اِسی عمر کے نوجوان لیتے ہیں اور یہ اس حد تک سمارٹ انداز میں اور برجستہ فیصلہ لے لیتے ہیں کہ اُنہیں کسی سے پوچھنے کی جیسی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ ایک 23 ؍سال کی عمر کے کمپنی کمانڈر کے ماتحت سو فوجی ، ۲۰؍چھوٹی رینک کے آفیسر، گاڑیاں، ساز و سامان ہوتا ہے ۔بڑے سے بڑے محاذ پر بھی یہ ۲۳؍سال کا نوجوان آزادانہ انداز میں جنگی فیصلے لیا کرتا ہے۔دراصل اسرائیلی آرمی میں افسر شاہی کے بجائے جتنی بڑی رینک ہوتی ہے اُتنی ہی جواب دہی ہوتی ہے۔ ایک عام فوجی بھی اپنے افسر سے جواب طلب کرسکتا ہے اور افسر بھی جواب دہی کے احساس کے ساتھ ساتھ دیش کے تئیں مخلصانہ انداز میں بے جھجک فیصلہ لے لیتا ہے بغیر یہ سوچے کہ ناکامی کی صورت میں شکست کی ساری ذمہ داریاں اُن پر آئیے گی۔ فیل ہونے کو عیب نہ تصور کرنے کی روایت نے اسرائیلی سیول ذمہ دار سے لے کر فوجی تک ہر ایک کو اس حد تک جری بنا دیا کہ وہ از خود بڑے سے بڑا فیصلہ لینے کی جرأت کرپاتا ہے۔اس عمر میں کبھی اُمت مسلمہ کی نسلیں ذمہ داریاں سنبھال لیا کرتی تھیں اُن کی حالت آج یہ ہے کہ چالیس کی سرحد پار کرنے کے باوجود وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے ہیں۔ 

٭… اسرائیل میں ایک فوجی تین سے پانچ سال تک فوج میں ریگولر طور پر ڈیوٹی دیتا ہے پھر ۲۰؍ سال تک وہ ریزو فورس میں رہتا ہے۔ مطلب یہ کہ تین یا پانچ سال بعد وہ فوج سے رخصت ہوکر کوئی دوسرا کام کرتا ہے اور اضافی طور پر اُنہیں ۲۰؍ سال تک کبھی بھی کسی مخصوص مشن کے لیے آرمی طلب کرسکتی ہے۔ ریزو فورس سے جڑے لوگ کم از کم سال میں ایک مہینہ کسی آرمی مشن کے ساتھ صرف کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائی اسی ریزو فورس کے اہلکار کرتے ہیں۔اس طرح اسرائیل اپنی کم آبادی کی وجہ سے بڑی فوج کی کمی کو پورا کرتا ہے۔

٭…IDF کے آفیسر و تاریخ دانMichael Oren جو امریکہ میں اسرائیل کے سفیر بھی رہ چکے ہیں نے اسرائیلی آرمی کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مثال میں کہا کہ: اگر اسرائیلی فوجیوں کی کوئی ٹولی جس میں عام فوجی، کیپٹن، کرنل اور جنرل شامل ہوں کمرے میں بیٹھے ہوئے ہوں اور اُن کا کافی پینے کا موڈ بن جائے۔تو وہاں کوئی کسی کو کافی کے لیے آرڈر نہیں کرتا ہے بلکہ جو بھی بندے کافی بنانے کی جگہ کے قریب بیٹھا ہوا ہوتا ہے وہ اُٹھ کر سب کے لیے کافی بنا لیتا ہے۔ پھر بھلے ہی وہ جنرل ہی کیوں نہ ہوں۔

٭… اسرائیل میں کسی بھی کمانڈر کے ماتحت فوجی اپنے کمانڈر کی کمزوری کے خلاف ووٹ کرسکتے ہیں اور اُنہیں مختصر وقت بھی کمانڈری سے ہٹا سکتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ لیڈر کی کامیابی کا راز اُن کے ماتحت لوگوں کا اُن پر بھروسہ ہوتا ہے۔ اگر اُن کی قابلیت پر بھروسہ ہی نہ رہے تو پھر آپ ایسے بندے کے ماتحت نہیں رہا جاسکتا  جس پر آپ کا بھروسہ ہی نہ ہو۔

٭… ستر کی دہائی میں جب مواسلاتی وسائل نہایت ہی کم تھے اُس زمانے میں معلومات کر تبادلہ کرنے کے لیے اسرائیلیوں نے ایک نئی Trand شروع کردی تھی۔ وہ ہر ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں ایک کوری کتاب رکھ دیا کرتے تھے اور جو کوئی بھی سیاح اُس ہوٹل میں ٹھہرتا تھا وہ دیگر اسرائیلوں کے لیے اُن علاقوں کے احوال لکھتا تھا جہاں سے وہ گھوم کر آیا ہو۔ وہاں کن مسائل سے انسان کو دوچار ہونا پڑتا ہے؟کس صورتحال سے واسطہ پڑتا ہے؟کون سی جگہ دیکھنے لائق ہے؟کہاں کس قسم کے لوگ مل جاتے ہیں؟ یہ سب اُس کتاب میں درج کرتا ہے پھر جب دوسرا کوئی یہودی وہاں آجاتا تھا تو وہ اُن علاقوں میں جانے سے قبل علاقے کے بارے میں کتاب سے ساری جانکاری حاصل کرلیتا ہے۔ مطلب جو کام آج کے زمانے میں سیاحتی ڈائری لکھ کر انٹرنٹ بلاگ کے ذریعے کیا جاتا ہے وہ آج سے پانچ دہائیاں قبل اسرائیلی ہوٹل میں رکھی اِن کتابوں سے لیتے تھے۔ یہ روایتی طرز عمل اُن کے یہاں آج بھی رائج ہے۔ جس ملک میں بھی اسرائیلی جاتے ہیں وہ وہاں پہلے کسی اسرائیلی شہری کے ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں تاکہ پہلے سے آئے ہوئے اپنے ملک کے شہریوں کی رائے سے جانکاری حاصل کرسکیں۔ امریکہ میں El Lobos ہوٹل میں اس کتاب کی ہزاروں صفحات پر درجنوں جلدیں موجود ہیں جو ایک تاریخ بھی ہے اور اسرائیلی یونیورسٹیوں کے طالب علم اپنے ریسرچ کے لیے اِن کتابوں سے مدد لیتے ہیں۔ 

٭… اسرائیلی دوسرے ملکوں کا سفر بلاخوف کرتے ہیں اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہاں کے مختلف ماحول اور کلچر میں گل مل جاتے ہیں۔ملٹری تاریخ دان Edward Luttwak کی تحقیق کے مطابق آرمی سے فراخت کے بعد ہر اسرائیلی 35 ؍سال کی عمر تک قریباً ایک درجن ملکوں سے گھوم پھیر کر آیا ہوا ہوتا ہے۔

٭… یہودیوں نے عربوں کے محاصرے کے بعداپنے لیے ایک اصول وضع کیا ہے کہ:The more you try to lock me in, the more I will show you I can get out 

٭… زرعی شعبے میں انقلاب برپا کرنے والی اسرائیلی کمپنیNetafim نے ٹیکنالوجی اور ایجادات کے ذریعے سے چالیس فیصد پانی کی کمی کے ساتھ پچاس فیصد فصل کا اضافہ کیا ہے۔دنیا کی یہ پہلی کمپنی ہے جس نے ٹیکنالوجی کو زرعی شعبے کے ساتھ اس حد تک منسلک کردیا ہے کہ بنجر زمین بھی زرخیز بن گئی اور محیر العقول حد تک پروڈیکشن پر اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

٭… دنیا کے تمام تجارتی لوگ اپنی ذاتی کمپنی اور کاروبار کو فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ اسرائیلی ذات کے بجائے اسرائیل کے لیے کمپنی اور کاروبار چلاتے ہیں۔ وہ اپنے ملک کی ضرورت دیکھ لیتے ہیں اور پھر اِسی حساب سے کاروبار شروع کرتے ہیں۔

٭… اسرائیلیوں کا ایک اور اصول یہ ہے کہ:to teach people how to be very good at a lot of things, rather than excellent at one thing. … اس اصول کے ذریعے اسرائیلی Multi-Tasking بن گئے ہیں۔ 

٭…According to the organisation for Economic Co-operation and Development (OECD), 45 percent of Israelis are university educated, which is among the highest percentage in the world. and according to IMD world Competitiveness Yearbook, Israel was ranked second among sixty developed nations on the criterion of whether university education meets the needs of a competitive economy.

٭…by the time students finish college, they are in their mid-twenties; some already have graduate degrees, and a large number are married. All this changes the mental ability of the individual, they are much more mature, theyve got more life experience. Innovation is all about finding ideas. Innovation often depends on having a different perspective. Perspective comes from experience, Real experience also typically comes with age or maturity. but in Israel you get experience, perspective and maturity at younger age, because the society jams so many transformative experiences into Israelis when they are barely out of high school. by the time they get to college, their heads are in different place than those of their American counterpart.

٭… کہتے ہیں جب ایک اسرائیلی کسی عورت کو پہلی بارDate کرتا ہے وہ اُنہیں اُسی رات اپنے ساتھ آنے کو کہتے ہیں۔ جب ایک اسرائیلی entrepreneur کو کوئی بزنس آئیڈیا سوجھ جاتاہے تو وہ اُسی ہفتے اپنے آئیڈیا کو عملی شکل دے دیتا ہے۔ اسرائیلیوں میں یہ سوچ ہے ہی نہیں کہ کسی بھی کام سے پہلے ضروری اس کے لیے Paper work کرکے اسناداور پروپوزل جمع کیے جائیں اور یہ بزنس میں ایک اچھی بات ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ کسی سوچ کو عملانے میں زیادہ وقت لینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف یہ سوچ اور سمجھ لو گے کہ کیا غلط ہونے والا ہے برعکس اس کے کہ کیا بدلنے(Transformation) والا ہے۔

٭… اسرائیل میں ملٹری ہیومن ریسورس میں Best لے لیتی ہے جبکہ امریکہ میں ملٹری یہ Wish کرتی ہے کہBest اُسے منتخب کرے۔ یہ سوچ کا فرق ہے۔ اسرائیل میں آرمی آپ کو نوجوانی میں اپنی صفوں میں شامل کرکے یہ سکھاتی ہے کہ جب آپ کسی چیز یا مشن کے انچارج ہوں گے تو آپ پر ہر اُس چیز کی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے جو ہونے والا ہو اور اُس چیز کا بھی جو نہ ہونے والا ہو۔ یہی ذہنی تربیت بعد میں پوری زندگی آپ کو بروقت فیصلہ لینے کا اہل بناتی ہے۔

٭…اسرائیل دنیا میں سب سے زیادہ ضائع شدہ پانیRecycle کرکے استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل 70 ؍فیصد ایسے پانی کو قابل استعمال بنا لیتا ہے جو اسپین سے تین گنا زیادہ ہے۔ایک سو سال قبل اسرائیل ایک بنجر ریگستان تھا جہاں کوئی درخت نہیں تھا اب اسرائیل میں ایک تخمینہ کے مطابق 240 ملین درخت ہیں۔ جنگلوں کے جنگل اُنہوں نے نئے اُگائے ہیں۔

٭… اکثر ممالک میں دماغوں کے ہجرتBrain Drain کے ذریعے سے باصلاحیت لوگ ہجرت کرکے ترقی یافتہ ممالک میں جاکر آباد ہوجاتے ہیں اور پھر واپسی کاکبھی سوچتے ہی نہیں، وہ اور اُن کی نسلیں وہی کی ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اسرائیل میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ وہاں باصلاحیت افراد دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ضرورجاتے ہیں۔ وہاں کچھ سال رہ کر نئی چیزیں سیکھ لیتے ہیں اور پھر چند برسوں میں اپنی تکنیکی ، فکری اور ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی کمالیتے ہیں اور بالآخر واپس اپنے ملک آکر حاصل کردہ صلاحیتوں اورتجربے کو اپنے ملک کے لیے صرف کرتے ہیں۔ اسے یہ لوگBrain Circulation کہتے ہیں۔

٭… A reform happens when you change the policy of the government; a revolution happens when you change the mindset of a country

٭…Patent یعنی کسیIntellectual Property کے مالک کو جو حق دیتی ہے کہ وہ اپنے آئیڈیا یا سوچ کو عملی شکل دینے، اس کو بیچنے اور اس کا کاروبار کرسکتا ہے، کوئی دوسرا اس کے اس آئیڈیا کو اس کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا ہے۔1980 سے 2000 کے درمیان سعودی عرب سے171 ، مصر سے77 ، کویت سے52 ،متحدہ عرب امارت32 ، شام20 اور جارڈن سے15 ،Patents رجسٹررڈ کیے گئے ہیں جبکہ اس مدت میں 71 ؍لاکھ آبادی والے اسرائیل سے7652 رجسٹررڈ کیے گئے۔

جارج برناڈ شاہ نئے کیا خوب کہا ہے کہ: اگر آپ کے پاس ایک سیب اور میرے پاس ایک سیب ہے،اور ہم دو نوں ایک دوسرے کو اپنا اپنا سیب دے دیں تو ہم دونوں کے پاس صرف ایک سیب ہوگا اور اگر آپ کے پاس ایک آئیڈیا ہو اور میرے پاس ایک آئیڈیا ہوگاتو ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنا آئیڈیا شیئر کریں گے تو ہم دونوں کے پاس دو دو آئیڈیاز ہوں گے۔  … کہتے ہیں حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے نوجوان نسل بہت کچھ سیکھ سکتی ہے اور اپنے آئیڈیاز کو صحیح سمت دے سکتی ہے۔ کتاب موجودہ دور کی مسلم نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ اُن کے سیاست دانوں ، نیز زمام کار چلانے والوں کے لیے نہایت ہی مفید اور نفع بخش ہے۔ کاش کی کوئی پبلیشر اس کا اُردو ترجمہ شائع کرنے کا اہتمام کرلیتا تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان کتاب سے استفادہ حاصل کر لیتے۔