زلزلہ (افسانہ)



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


✍️:... فاضل شفیع بٹ/ اکنگام، انت ناگ

موبائیل نمبر:9971444589

کچھ عجیب سے خیالات نے ذہن کو جیسے گھیرا ہوا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب سورج اپنے محور میں آسمان پر اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے تو کتنا حسین منظر ہوتا ہے۔ زمین پر ہر مخلوق سورج کی کرنوں کی تمازت کو اپنے اندر جذب کرتی ہے اور حیات کا سامان کرتی ہے۔  اور جب اسی آسمان پر وہی سورج کبھی آگ اگل دیتا ہے تو اس کی گرمی سے کائنات کا ذرہ ذرہ جھلس جاتا ہے۔

 اِسی آسمان پر جب ہلکے ہلکے بادل نمودار ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ بارش کی بوندوں کو زمین پر برساتے ہیں تو کیا ہی دلفریب منظر ہوتا ہے۔ آنکھوں کو مسحور کر دینے والی بارش، پیڑ پودوں میں ہریالی لانے والی بارش، قلم کاروں کی تخلیقات کو پرواز دینے والی بارش، آبشاروں میں جان ڈالنے والی بارش۔ اور جب اسی آسمان پر کالے اور گہرے بادل چھا جاتے ہیں جو طوفانی بارش سے زمین کو اپنے قہر کی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ آنکھوں کو لرزہ خیز کر دینے والی سیلابی بارش، ندی نالوں میں ایک بھیانک  شکل اختیار کرنے والی بارش،  اپنے قہر کے ساتھ پیڑ پودوں کو جڑ سے اکھاڑنے والی بارش, اونچے اونچے پہاڑوں, ٹیلوں, زمینوں کو بہاکر لے جانے والی بارش, غریبوں کی جھونپڑیوں، امیروں کے گھروں اور گاڑیوں کو بہا کر  لے جانے والی بارش۔۔۔۔۔۔

میں اسی سوچ میں گم تھا کہ اچانک ایک بھیانک زلزلہ آیا اور چند منٹوں تک جاری رہا۔  چونکہ میرا قیام ایک شکستہ جھونپڑی میں تھا اس لیے مجھے زیادہ گھبرانے کی ضرورت محسوس  نہ ہوئی۔ میری آنکھوں نے باہر کا خوفناک منظر دیکھا، بلند و بالا تعمیرات زمین بوس ہو چکی تھیں۔ قد آور پیڑ پودے جھک گئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنے خالق کے سامنے اپنا سر تسلیمِ خم کر چکے ہوں۔

 زمین کے اندر بڑے بڑے شگاف پیدا ہو چکے تھے، جن میں بہت سے لوگ دھنس گئے تھے۔  ایک دم سے میرا شہر ویران دشت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میری بوسیدہ جھونپڑی، جس میں محض ایک کمرہ  اور ایک پرانی ویران الماری تھی، شدید بھونچال کے بعد بھی جوں کی توں کھڑی تھی۔

 یہی زمین انسانوں،  چرندوں، پرندوں اور باقی حیوانات کا گھر ہے، اسی زمین سے کسان فصلیں پیدا کرتے ہیں، اسی زمین پر سر سبز گھاس اُگ جاتی ہے، یہی زمین بڑے بڑے پہاڑوں اور جنگلات کو اپنے اوپر سمیٹی ہوئی ہے اور آج اسی زمین نے اچانک ان سب کی پرواہ کیے بغیر ایک آباد شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا۔  گویا زمین بھی کسی کے حکم کی محتاج ہے۔۔ شاید زمین نے آج واحدالقہار اور جبار خدا کا حکم بجا لایا تھا۔۔۔

 میں اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے اندر چلا گیا۔ حالانکہ میں بھی کسی وقت ایک عالیشان بنگلے میں سکونت پذیر تھا۔ دنیاوی حالات اور کچھ مجبوریوں نے  مجھے ایک معمولی سی جھونپڑی میں رہنے پر مجبور کر دیا۔اس بھونچال نے  میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دی۔ ایک اور ہلکا سا جھٹکا آیا۔ میں ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا:

 یہ زمین، آسمان، چاند، سورج ،ستارے ،پیڑ پودے، بارش، آبشار،قدآور پہاڑ۔۔۔۔ ان کے بس میں کچھ بھی تو نہیں ہے۔ اگر آسمان کے بس میں کچھ ہوتا تو زمینی مخلوق پر  قہر نازل نہ کرتا اور اگر زمین کے بس میں کچھ ہوتا تو وہ کبھی بھی اپنی مخلوق کو آفات میں مبتلا نہ کرتی۔ یہ سبھی کسی ذات کا حکم ہے جو یہ تمام مخلوقات خوب ڈھنگ سے بجا لاتے ہیں اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں بھی تو اسی مخلوق کا حصہ ہوں۔ میرے اندر روح ہے۔ میں سب چیزوں کو محسوس کر سکتا ہوں۔۔۔ میں خوشی اور غم کو محسوس کر سکتا ہوں۔ ہزاروں سالوں سے دنیا آباد ہے۔ زمین و آسمان اپنی جگہ پر قائم ہیں مگر صرف انسان کا وجود ہی ایک دن ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے۔

 وقت وہی ہے،  سورج وہی ہے اور چاند بھی وہی ہے  مگر لوگ وہ نہیں ہیں۔۔۔۔۔

 اگر انسان مختصر وقت کے لیے ہی اس دنیا میں جنم لیتا ہے پھر اس کا وجود کیوں کر ہوا؟

 اگر خدا نے محض اپنی عبادت کے لیے انسانوں کو دنیا میں بھیجا ہے پھر سب لوگ صرف ایک خدا کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟ پھر یہ مذہب کا وجود کیوں کر ہوا۔۔۔؟ ایک اور ہلکا سا جھٹکا ہوا اور میں پھر کہیں کھو گیا۔۔۔۔

 دنیا میں ہر کسی انسان کسی نہ کسی مذہب سے منسلک ضرور ہے۔ کوئی صرف ایک خدا کی پیروی کرتا ہے، کوئی متعدد خداؤں کو پکارتا ہے اور کوئی خدا کو مانتا ہی نہیں۔ گویا یہ مذھب کا وجود ہی انسان کو اپنے اصل وجود سے پرے رکھتا ہے۔ آسمان، زمین، چاند، سورج اپنے خالق کا حکم بجا کر اس کی عبادت کرنے کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا کوئی مذہب تو نہیں ہے۔ سورج مسلمان کو گرمی سے فائدہ دیتا ہے،  چاند اپنی روشنی سے ہندو کے آنگن کو منور کرتا ہے، عیسائی ممالک میں خوبصورت سے خوبصورت پہاڑ موجود ہیں۔۔۔۔ اور انسان نے روز اول سے ہی مذہب کی آڑ میں ایک دوسرے کا خون بہایا ہے۔

 ان خیالات نے مجھے زلزلے کے جھٹکوں کے ساتھ ساتھ جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ واقعی یہ  آسمان، زمین  ،چاند ،سورج ،ستارے کسی بھی حال میں اپنے خالق کے حکم کی عدولی نہیں کرتے۔ وہ اپنے خالق کا ہر حکم بجا لاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ محض ایک انسان کو چھوڑ کر باقی نباتات,حیوانات مذہب کے نام سے  انجان ہیں۔ واحد انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کا جنم مذہب سے شروع ہوتا ہے اور اس کا اختتام مذہب پر ہی ہوتا ہے۔۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مذہب کو بھی الگ الگ حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ ایک مذہب کو متعدد فرقوں میں تقسیم کر کے لوگوں کے جذبات کو قید کر دیا گیا ہے۔ مذہب کو ہمیشہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کو ایندھن بناکر مٹایا گیا ہے۔ 

 ایک اور جھٹکے کے ساتھ میری سوچ کچھ الگ سوچنے لگی۔

لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مذہب نے ہی تو انسان کو ایسے قواعد و ضوابط کے دائروں میں قید کیا ہے جس سے وہ وحشیانہ روپ اختیار کرنے سے باز رہتا ہے۔ جیسے ایک ملک کے قوانین اس ملک کے لوگوں پر عائد کیے جاتے ہیں،ٹھیک اسی طرح مذہب سارے انسانوں کے لیے ایک وسیع فصیل کی مانند ہے جس کے اندر رہ کر انسان  غلط اور صحیح میں واضح طور سے فرق کرنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔

 مذہب سے ہی جنت اور جہنم کا وجود انسانوں کے ذہنوں میں راسخ ہوا۔ لیکن یہاں بھی انسان نے اپنا  اصل رنگ دکھا دیا۔۔ مذہب کے ٹھیکے داروں نے اپنے مفاد کے خاطر اس آلے کا بڑی حکمت اور چالاکی سے استعمال کیا۔ لوگوں کی آنکھوں میں جنت کے خواب سجا کر خود دنیاوی زندگی کی رنگینیوں میں محو ہو گئے۔  وہ لوگوں کے اندر جہنم کے خوفناک مناظر کا ڈر پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے اہل خانہ کو دنیاوی  زندگی کی ہر سہولیت سےآشنا کیا۔

ایک قدرے زوردار جھٹکا آیا اور میری جھونپڑی میں کتابوں کی الماری تمام مذہبی کتابوں سمیت دھڑام سے فرش سے ٹکرائی۔ جو تھوڑے برتن تھے وہ بھی گرگئے اور ان میں سے اکثر ٹوٹ گئے۔ 

  میری سوچ کا تسلسل بھی چھپاک سے ایک دم ٹوٹ گیا۔ میں مذاہب کے متعلق ان مضکحہ خیز خیالات کی دنیا سے باہر آیا۔ زلزلے کی وجہ سے سے طاری خوف کی وجہ سے میں نے اپنے وجود میں جھانکنے کی کوشش کی۔ میں اپنے وجود کو ڈھونڈ رہا تھا۔

 میرا وجود میرے سائے کے مانند تھا جو ہر موسم  میں میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ لیکن جب آسمان پر گہرے بادل چھا جاتے ہیں، جب سورج کا گولا گہرے بادلوں کے بیچ دب جاتا ہے تب میرا سایہ میرا ساتھ چھوڑ دیتا ہے ٹھیک اسی طرح جب انسان کی روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو اس کا وجود ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے۔ اس کا جسم یا تو زمین میں سڑ کر خاک ہو جاتا ہے یا پھر دہکتے آگ کے انگاروں میں جھلس کر ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتا ہے۔

حق اور ناحق، صحیح اور غلط، خوب اور نا خوب کیا ہیں۔ ؟ ضمیر کیا ہے۔۔۔؟ یہ سوالات میرے دماغ میں بار بار گردش کر رہے تھے۔  ضمیر ہی واحد وہ شۓ  ہے جو انسان کو اپنا اصل چہرہ دکھاتا ہے۔ انسان غلط کرتا ہے۔۔۔  بعد میں پچھتاوے کا شکار ہوتا ہے۔ رشوت خوری کر کے بے قرار رہتا ہے۔۔۔ زنا کرتا ہے تو اس کو اپنے آپ سے گن آنے لگتی ہے۔ اپنے خدا کو بھول جاتا ہے، تو ضمیر اس کو للکارتا ہے۔۔۔ کسی کا بے دردی سے قتل کرتا ہے تو اس کو اپنے آپ سے نفرت ہو جاتی ہے۔ گویا انسان کسی بھی صورت میں اپنے ضمیر کے ساتھ دھوکہ دہی نہیں کر سکتا۔ بھلے وہ ساری کائنات کو اپنی فریب میں رکھتا ہے لیکن وہ اپنے ضمیر کی سلاخوں کے بیچ ایک قیدی کے مانند اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان کا ضمیر کبھی مرتا نہیں ہے بلکہ وہ بے حس و حرکت جسم کے کسی کونے میں چپ چاپ بیٹھ کر تماشائی کا کام انجام دیتا ہے۔ وہ ایک انسان کو اپنی اصلیت اور اپنے وجود سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ غلط اور صحیح کے بیچ کا فرق واضح کر دیتا ہے۔ انسان کے ضمیر کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ اس کا کوئی وجود ہوتا ہے بلکہ وہ ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے جس سے ایک انسان شاز و نادر ہی دیکھنا پسند کرتا ہے۔ انسان نے ہمیشہ سے ہی ضمیر کو اپنا  غلام بنانے کی انتھک کوششیں کی ہیں لیکن ضمیر کو غلام بنانے کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہوئی ہیں گویا ضمیر انسان کو جہالت کے گہرے سکوت سے بیداری کا عمل انجام دیتا ہے۔ ضمیر ہر انسان کے وجود میں پیوست ہوتا ہے جس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

 انفس و آفاق میں زلزلے کے جھٹکے جاری تھے۔ میں اپنی شکستہ جھونپڑی میں یہ ساری باتیں سوچ کر پاگل ہو رہا تھا۔ میرے دماغ میں متعدد سوالات نے جنم لیا تھا۔ جن کا جواب میرے پاس نہ تھا اور کچھ سوالات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا علم خالق حقیقی کے سوا کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے سامنے بکھری پڑی ساری کتابیں ٹٹولی لیکن کسی بھی کتاب میں مجھے اپنے سوالات کا جواب نہیں ملا۔

 میں  بالآخر اپنے ضمیر کی جانب متوجہ ہوا۔  میرا ضمیر سنجیدگی سے مجھ سے مخاطب ہو کر بولا:

"  تمہارے وجود کے پیچھے اللہ کی ذات ہے جس سے تم کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ تم دنیا میں اشرف المخلوقات کی حیثیت رکھتے ہو۔ باقی لوگوں کے بارے میں اپنی رائے دینے سے گریز کرو اور تم اپنے اندر جھانک کر دیکھو۔  تم خود ایک انسان کی شکل اختیار کر لو۔۔ میں تمہارا آئینہ ہوں۔ اس آئینے میں اپنے آپ کو دیکھنے کی کوشش کرو۔ جس دن تمہارے اور میرے تعلقات استوار ہوئے اس دن تم ایک انسان کہلانے کے حقدار ہو جاؤ گے اور تمہیں ہر سوال کا جواب ملے گا"

 ایک آخری خوفناک اور دل دہلادینے والا زلزلہ آیا۔ اور تین چار منٹ تک جاری رہا۔ میرے اعصاب چٹخنے لگے۔ میرے سارے سوالات میرے ذہن سے اوجھل ہو گئے۔ میری جھوپڑی تہس نہس ہوئی اور گھاس پھوس کی چھت کا ایک حصہ میرے اوپر آیا۔ میں کئی لمحوں تک  بے حس اور ساکت پڑا رہا۔ میں نے گھاس پھوس اور لکڑی کے ملبے کو اپنے اوپر سے ہٹایا, اور ہوش مجتمع کئے۔ انفس و آفاق میں آئے ہوئے زوردار جھٹکوں نے میرے سارے سوالات کو ہمیشہ کے لیے میرے ذہن سے مٹا دیا تھا۔۔۔ شاید میرا ضمیر جاگ چکا تھا۔۔۔۔۔!!