اب اجمیر شریف کی درگاہ میں بھی مندر نظر آ گیا!



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


خصوصی رپورٹ :... رضوان سلطان /نوکِ قلم 

گیان واپی مسجد ،شاہی عید گاہ مسجد، سمبل جامع مسجد کے بعد اب خواجہ معین الدین چشتی کی اجمیر درگاہ کے نیچے بھی ہندوتوا شدت پسندوں کو مندر نظر آگیا ہے. 

دراصل اجمیر کی مقامی عدالت نے شیو مندر ہونے کا دعویٰ کرنے والی پٹیشن سماعت کے لئے منظور کرلی ہے۔ اجمیر کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کورٹ میں یہ پٹیشن ہندو سینا کے صدر وشنوگپتا نے داخل کی ہے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ درگاہ کے مقام پرمہاکال شیو مندر تھا جسے دوبارہ تعمیر کروایا جائے، یہاں ہندوئوں کو داخلے اور پوجا پاٹھ کی اجازت دی جائے۔ پٹیشن میں محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے سروے بھی کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہندو سینا کے صدر نے پٹیشن میں ۱۹۱۰ء میں شائع ہونے والی "ہر ولاس شاردا" کی کتاب کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کتاب میں درگاہ کی جگہ پر مندر ہونے کے پختہ ثبوت پیش کئے گئے ہیں۔ کورٹ نے اس پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے اس معاملے میں محکمہ آثار قدیمہ، ریاستی اقلیتی محکمے اور اجمیر درگاہ کمیٹی کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔

واضح رہے مقامی عدالت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ریاست اترپردیش کے شہر سنبھل میں ہندو انتہاپسندوں نے ایک اور مسجد کی جگہ ہندو مندر ہونےکا دعویٰ کیا جس پر ہونے والے احتجاج میں پولیس کی فائرنگ میں 5 مسلم نوجوان جاں بحق ہوگئے.

اجمیر درگاہ کے حوالے سے کورٹ کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے مجلس اتحاد المسلمین کے صددرگاہ پچھلے 800 سالوں سے موجود ہے، نہرو سے شروع ہونے والے وزیر اعظم درگاہ کو چادر بھیجتے رہے ہیں، پی ایم مودی بھی وہاں چادر بھیجتے ہیں۔ اویسی نے مزید کہا کہ، بی جے پی-آر ایس ایس نے مساجد اور درگاہوں کے بارے میں یہ نفرت کیوں پھیلائی ہے؟ نچلی عدالتیں ورشپ ایکٹ پر عمل کیوں نہیں کر رہی ہیں؟۔۔۔ انھوں نے کہا کہ، اس طرح قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کہاں جائے گی؟ مودی اور آر ایس ایس کی حکمرانی ملک میں قانون کی حکمرانی کو کمزور کر رہی ہے یہ سب بی جے پی-آر ایس ایس کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے۔

تشویشناک تازہ ترین دعویٰ: شیو مندر پر اجمیر درگاہ ہم اس ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ اور کیوں؟ سیاسی منافع کے لیے!

پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ "بھارت کے  سابق چیف جسٹس کی بدولت ایک پنڈورا باکس کھل گیا ہے جس سے اقلیتی مذہبی مقامات کے بارے میں ایک متنازعہ بحث چھڑ گئی ہے۔ پہلے مساجد اور اب اجمیر شریف جیسی مسلم عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں مزید خونریزی ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تقسیم کے دنوں کی یاد تازہ کرنے والے اس فرقہ وارانہ تشدد کو جاری رکھنے کی ذمہ داری کون لے گا؟"

"پھر بھی ایک اور چونکا دینے والا یہ مقدمہ اجمیر کی درگاہ شریف میں کہیں چھپے ہوئے مندر کے تعاقب میں دائر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم 2024 کو الوداع کہہ رہے ہیں،ہم مصنوعی ذہانت کے دور میں ہیں۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور بطور ہندوستانی ہمیں ایماندار ہونے دیں۔ ہم نے کسی تکنیکی انقلاب میں حصہ نہیں ڈالا۔”

"وہ پڑھے لکھے لوگ جنہیں ہندوستانی تکنیکی انقلاب کا اعلان کرنے میں سب سے آگے ہونا چاہئے تھا وہ افسانوی کہانیوں میں مصروف ہیں۔ میں حال ہی میں دبئی میں تھا اور مجھے وہاں تعمیر کیے گئے مندروں کے فن تعمیر کی شان دیکھنے کا موقع ملا۔ رواداری اور باہمی احترام کا نظارہ اتنا اچھا ہے کہ جس طرح وہ وہاں رہتے ہیں ہر قومیت کتنی منظم ہے۔”

اجمیر کو روحانیت کی علامت بتاتے ہوئے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ آخر کار اعتدال اور رواداری غالب آئے گی۔ اور تمام جگہوں کا اجمیر شریف درگاہ روحانیت کی علامت ہے۔ یہ تمام عقائد کی منزل ہے، جہاں مذہب، ذات پات، عقیدہ سے بالاتر ہو کر سب ملتے ہیں۔ روحانیت کی اس عظیم نشست کی روحانی نجات میں ایک انوکھا یقین اور بھروسہ ہے۔ اعتدال پسند نظریہ اور انتہا پسندی کے درمیان لڑائی میں ہم نے کشمیر میں اپنی لڑائیاں لڑیں۔”

سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کی زیر قیادت ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی کے چیف ترجمان سلمان نظامی نے 1991 کے عبادت گاہوں کے ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت کے فیصلے کو "حیران کن” قرار دیا، جس میں مقامات کی مذہبی شناخت کو تبدیل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

درگاہ اجمیر شریف کے جانشین دیوان صاحب اورصدرنشین آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل سید نصیرالدین چشتی نے اجمیر درگاہ میں مندر ہونے کے دعوے پر کہا کہ  ملک میں چند دنوں سے مساجد اور درگاہ کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کرنا ایک فیشن ہوگیا ہے. 

سستی شہرت کے لئے بعض لوگ اس طرح کی حرکت کررہے ہیں اس معاملے میں درگاہ کمیٹی، اقلیتی امور کی وزارت اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو فریق بنایا گیا ہے۔ ہم اس معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور اپنے وکلاء سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ اپنا موقف مؤثر طریقے سے پیش کر سکیں۔

تاہم ان عدالتوں کی طرف سے درخواستیں قبول کرنا ورشپ ایکٹ 1991 کی صریح خلاف ورزی تصور کیا جا رہا ہے ۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہوں کی حیثیت وہی رہے گی جو 15 اگست 1947 کو تھی۔ اس قانون کے مطابق 15 اگست 1947 سے پہلے موجود کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر آپ ایودھیا کیس کو دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں سپریم کورٹ نے 15 اگست 1947 کو صورتحال کو پلٹتے ہوئے ایک مختلف فیصلہ دیا تھا۔ یعنی ایودھیا کی رام جنم بھومی کو عبادت گاہ کے قانون کے دائرے سے الگ رکھا گیا۔

عبادت گاہوں کے قانون کی دفعہ 3 کیا ہے؟

عبادت گاہوں کے قانون کے سیکشن 3 میں کہا گیا ہے کہ مذہبی مقامات کو اسی طرح محفوظ رکھا جائے گا جیسے وہ 15 اگست 1947 کو تھے۔ ایکٹ کا سیکشن 3 کسی بھی مذہبی فرقے کی عبادت گاہ کی مکمل یا جزوی تبدیلی سے منع کرتا ہے۔ اس میں ایک اور خاص بات ہے۔ قانون میں لکھا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ موجودہ مذہبی مقام تاریخ میں کسی اور مذہبی مقام کو تباہ کر کے بنایا گیا تھا، تب بھی اس کی موجودہ شکل کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

-سیکشن 4(1) اعلان کرتا ہے کہ عبادت گاہ کا مذہبی کردار 15 اگست 1947 کو ’ویسے ہی بنا رہے گا جیسا وہ وجود میں تھا۔

تاہم بابری مسجد کے بعد  گیان واپی مسجد ،شاہی عید گاہ مسجد ،کمال مولی مسجد،جامع مسجد شمسی  مساجد کے خلاف ہندوتوا شدت پسند جماعتوں نے کورٹ کا رخ کر کے انکے مقام پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا ہے.