"قبیلہ"...... ✍️تنویر احمد راتھر



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


✍️:.... تنویر احمد راتھر

اپریل کا مہینہ تھا۔ چمکیلی دھوپ ، گہرانیلا آسمان اور پہاڑوں پہ جمی سفید برف قُدرت کے ایک شاہکار نظارے کو تخلیق کررہی تھی جو کہ صرف وادیِ کشمیر کا ہی خاصہ رہا ہے۔میدانوں سے اوپر اور پہاڑوں کے دامن میں سرسوں کے پیلے پیلے پھول اور ان کے اوپر منڈلاتی شہد کی مکھیاں فِضا میں رومانی کیفیت پیدا کررہے تھے کچھ پیلے پھول جھڑ چکے تھے اور سرسوں کی ننھی ننھی پھلیاں بننے لگی تھیں۔ سرسوں کا ایک پودا اپنے پڑوسی پودے سے سرگوشیوں میں باتیں کررہاتھا۔

"بھیاـ بھیا مُجھے اپنے اس عظیم قبیلے کی کہانی سُناو۔؟

دوسرے نسبتاً بڑے پودے نے جواب دیا۔

" اگر تُم اپنے خُلیوں پہ توجہ دو گے تو تمہیں قبیلے کی پوری تاریخ پتہ چل جاے گی ۔یہ ہمارے ہر ایک فرد کے خلیاتی نظام میں ثبت ہے۔"

لیکن آپ ہم سب سے بڑے ہیں آپ کو یقیناً بہت سی ایسی باتیں پتہ ہوں گی جنہیں ہم ابھی نہیں پڑھ سکتے۔

بلکل بلکل آپ کو کہنا ہی پڑے گا۔ہر طرف سے سرسوں کے پودوں نے اصرار کیا۔

ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔بالآخر سرسوں کے بڑے پودے نے ہار مان لی۔

آج سے تین سال پہلے کی بات ہے کہ جب خان صاحب اور انکی بیگم چنڈی گڈھ گیے تھے اور وہاں کے ایک بڑے سے شاپنگ مال سے مصالحے خرید رہے تھے تبھی مچھلی پکانے کےلیے انہوں نے سرسوں کا ایک پیکٹ خریدا تھا ۔پھر خانصاحب ایک دن ڈیوٹی سے لوٹے تو انکے ہاتھوں میں کوکر ناگ کی مشہور ٹراوٹ مچھلی سے بھرا ایک بیگ تھا۔مچھلی پکانے کے دوران سرسوں کا پیکٹ پھاڑا گیا تو ہمارے دادا جان بیگم صاحبہ کے ہاتھ سے گرِ کر کوڑے دان میں پہنچے۔پلاسٹک کے اُس کوڑے دان میں سڑی گلی چیزوں کے ساتھ رہ کر ہمارے دادا بہت پریشان ہوے۔ آخر کار اگلی صبح نوکرانی نے کھیت میں اس کوڑے دان کو خالی کیا تو ہمارے داداجی نے سکون کی سانس لی۔ کوڑے کے ڈھیر سے کئی میٹر دور ہمارے دادا نے نرم مٹی کو اپنا گھر بنایا۔جب دو دنوں بعد بارش ہوئی تو کچھ ہی روز میں سرسوں کے دانےسے کونپل پھوٹی اور پھر سردیاں شروع ہوئیں ۔ کئی بار برف گری لیکن ہمارے دادا کے عزم و ہمت میں ذرا بھر بھی فرق نہیں آیا۔ موسم بہار کے آتے آتے سرسوں کے اس پودے پر کئی پھول آے۔ کوڑے کے ڈھیر سے بہت ساری توانائی بھری غذا کھا کر وہ پودا بے حد تنو مند ہو گیا۔جب پھول جھڑ گیے اور سرسوں کی پھلیاں تیار ہوگییں تو ایک دن راہ چلتے ایک کسان نے اس پودے کو اُکھاڑ کر اسے گھر میں سُکھایا اور چمکدار سرسوں کے دانوں کو اگلے سال کے بیجوں کےلیے رکھ لیا۔ کئی سو دانوں کے بعد ہم ہزاروں اور پھر لاکھوں میں بڑھ گیے۔یہ ہمارے قبیلے کی تاریخ ہے اور تاریخ صرف کامیاب قبیلوں کو ہی یاد رکھتی ہے کمزور، بزدل اور جدوجہد سے گھبرانے والوں کےلیے تاریخ کے صفحے بند ہو جاتے ہیں۔

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے۔

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔

موضع سرہامہ ،تحصیل سریگفوارہ، ضلع اننت ناگ ،جموں کشمیر

رابطہ: 8492848411