ڈاکٹر الطاف حسین یتو کی "تجلیات معرفت" میری نظر میں



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


✍️:... رئیس احمد کمار/قاضی گنڈ کشمیر

ڈاکٹر الطاف حسین یتو محکمہ اعلیٰ تعلیم جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹیڑیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اردو اور انگریزی زبان و ادب سے انہیں گہری دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر کالم و مضامین وادی گلپوش سے شائع ہونے والے معتبر اور معیاری روزناموں میں تواتر کے ساتھ چھپتے رہتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر وارث متین مظہری، ڈاکٹر الطاف کو تصوف اور کشمیریات پر اختصاص حاصل ہے۔ انہوں نے کئی تصانیف تخلیق کیں ہیں مگر اس وقت جس کتاب پر میں تبصرہ پیش کرنے جا رہا ہوں وہ "تجلیات معرفت" ہے۔ 230صفحات پر مشتمل یہ کتاب دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع ہوئی ہے جس میں کل 33مضامین شامل ہیں۔ ولر پبلشنگ ہاوس کے زیر اہتمام شائع شدہ یہ کتاب اردو سے لگاو اور واقفیت رکھنے والے قارئین کے لیے ایک سودمند تحفہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اپنی بات عنوان کے تحت مصنف اس بات کو واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اردو زبان و ادب سے انہیں دلچسپی تب بڑھ گئ جب ماسٹر عبدالرحیم بٹ نے انہیں ساتویں جماعت میں سر سید احمد خان کا مضمون تعصب اور ماسٹر غلام احمد نے غریب کا چراغ پڑھایا تھا۔ ایس معشوق احمد جو وادی کشمیر کے ایک منجھے ہوئے نوجوان انشایہ نگار ہیں نے جب ان کا مختصر مضمون ڈل کنارے ملاحظہ کیا اور اسے ہم سب بلاگ پاکستان بھیجا تو وہ چند دنوں میں ہی وہاں بھی چھپ گیا۔ اس کا چھپ جانے سے ہی دراصل ڈاکٹر الطاف حسین کے لیے ایک نئی راہ کھل گئی اور اس نے مسلسل لکھنا شروع کر دیا۔ تجلیات معرفت ایک انمول سوغات، حسن انظر کا یہ مضمون کتاب کا عمدہ احاطہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں "کلمہ و کلام اور زبان و بیان پر دسترس کی بدولت آپ علمی معاملات، اسلامیات اور اخلاقی و نصیحت آموز مضامین کو بھی پرلطف اور دلکش بنا سکتے ہیں"۔ کتاب کا تقریظ نامور ادیب و ماہرِ تعلیم ڈاکٹر جوہر قدوسی نے تحریر کیا ہے۔ موصوف نے کتاب اور مصنف دونوں کے بارے میں اچھے اور مثبت الفاظ کے زریعے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ "انہوں نے عصر حاضر کے بعض سلگتے مسائل و موضوعات پر رشحات فکر پیش کرتے ہوئے ایک طرف اپنے حساس ذہن اور عصری آگہی کا بین ثبوت فراہم کیا ہے، دوسری طرف انہوں نے اپنی علمی بصیرت، روحانی معرفت اور لسانی لیاقت کا بھی لوہا منوایا ہے"۔ نوجوان ادیب اور معروف قلمکار ایس معشوق احمد اپنے مضمون "تجلیات معرفت کے انوار" میں ڈاکٹر الطاف کی اخلاقی و ادیبانہ خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں "ڈاکٹر الطاف حسین ایک مفکر، کامیاب معلم اور صاحب اسلوب ادیب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نرم طبیعت، بلند مقاصد اور والہانہ جزبات کے حامل ہیں"۔ معرفت حق اور معرکہ خرد جنوں؛ کتاب کے اس پہلے ہی مضمون میں مصنف سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۷۰ کے حوالے سے قاری کو یہ سمجھانے کی کامیاب کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل وفکر، نطق و بیان اور جزبات و احساسات کی صلاحیتوں سے مالامال کیا ہے اور ان صلاحیتوں سے رنگ و نسل یا جغرافیہ و وطن کی بنیاد پر کسی بھی انسانی جماعت کو محروم نہیں رکھا گیا ہے۔ قافلوں کے نگہبان؛ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے میر کارواں کے انسانیت کے تئیں نفسانی اور اخلاقی خدمات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے اور یہ بھی دکھانے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ کس طرح میر کارواں اپنی معیت اور مصابحت میں چلنے والوں کی جسمانی و روحانی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے۔ آں کتاب زندہ قرآن حکیم؛ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے پیغمبر اسلام صلعم کی بعثت مبارک کے وقت منکرین اور معاندین حق کی طعن و تشنیع کے بارے میں لکھا ہے۔ منکروں کے سوالات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے جو انہوں نے قران کے نازل ہونے اور نبی ﷺ کی بعثت کے بعد اٹھاۓ تھے۔ سیدنا ابراہیم تسلیم و رضا کا ابدی عنوان؛ اس مضمون میں سیدنا ابراہیم کے دیگر پیغمبروں کی طرح فلسفیانہ سطح پر اپنے قوموں کے سامنے رب ذولجلال کا تعارف پیش کرنے اور اس دعوت کے دوران باطل کے علمبرداروں کے ہاتھوں ظلم و ستم جھیلنے اور برداشت کرنے کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ربیع الاول اصلی عالمی بہار ؛ دور جہالت میں جب انسانیت کو بہیمیت نے شکست سے دوچار کیا تھا، جب سرسبز شاداب مسکن انسانی کو بنی آدم کی حرص نے خون بنی آدم سے لالہ زار کیا تھا اور آدم کی بیٹی حوا کو جینا محال کر دیا گیا تھا۔ اسی دور میں اللہ تعالی نے قدسیوں کی ایک جماعت کھڑا کی اور اس جماعت کی رہنمائی کے لئے ان ہی میں سے ان کے سردار کو مبعوث کیا۔ اسی مہینے قدسیوں کی نشونما شروع ہوئی تھی جس سے پوری انسانیت سرشار ہوئی اور ایک عالمی بہار آ گیی ۔ محمد ﷺ الصادق الامین ؛ جب بھی ہم تاریخ اسلامیہ یا سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو نبی ﷺ کے صادق الامین ہونے کی واقعی تصدیق ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح مشرکین بھی آپ پر پورا اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون انتہائی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ قاری کے علمی خزانے میں بھی اضافہ کرتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ اس مضمون میں کئی اہم اور منفرد واقعے درج کئے گئے ہیں جو عام قاری نے پہلے شاید سنے نہیں ہو۔ معراج النبیﷺ عبدیت کا عروج ؛ معراج نبی ﷺ کے اہم معجزات میں سے ایک ہے جس پر مشرکین مکہ نے بہت بار اعتراضات جتائے تھے لیکن ابوبکر صدیق رضی الله کے تصدیق کرنے پر سب کی بولتی بند ہوگئ تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک طویل اور متاثر کن تحریر کے ذریعے  معراج سے پہلے کے حالات اور معراج کے دوران دکھاۓ گئے مناظر کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے تاکہ قاری تک یہ پیغام پہنچے کہ معراج کا اصل درس کیا ہے۔ زکوٰۃ پاکیزگی کی شاہراہ عظیم ؛ دین اسلام کے پانچ بنیادی ستونوں میں زکوۃ بھی شامل ہے جس پر قران مقدس میں بار بار تاکید کی گئی ہے۔ زکوۃ کا بنیادی لب لباب تزکیہ یعنی پاکیزگی، طہارت اور پارسائی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس مضمون سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ نبی صلی کو اللہ تعالی نے چہارگانہ ذمہ داریوں میں پاکیزگی، طہارت اور تزکیہ کو ایک خاص اہمیت دی ہے۔ لیلتہ القدر اہمیت و فضیلت ؛ ماہ رمضان ایک مقدس مہینہ اس لئے بھی تصور کیا جاتا ہے کہ اس میں قرآن نازل ہوا ہے اور جس رات کے دوران اسے خداوند بزرگ نے اتارا وہ شب قدر یا لیلتہ القدر کی رات تھی۔ علماء اور مبلغین حضرات کی زبانوں سے ہم نے اس رات کی فضیلت اور انعامات کے بارے میں گرچہ بہت بار سنا ہے لیکن جس دلکش انداز بیاں سے ڈاکٹر صاحب نے اس مضمون کے ذریعے اس رات کے بارے میں تحریر تخلیق کی ہے وہ مطالعہ کرنے اور باریک بینی سے سمجھنے کے لائق ہے۔ عیدالفطر اور تکبیر رب ؛ عیدالفطر مسلمانوں کا عظیم تہوار ہے جو ہر سال ماہ رمضان کے اختتام اور شوال کا چاند نظر آجانے کے بعد منایا جاتا ہے۔ اس مضمون میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب میں تہواروں کی اہمیت اور افادیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ بقول مصنف ہجرت کے وقت مدینہ میں بھی یہود اپنے مذہبی اور قومی تہوار مناتے تھے اور اہل مدینہ کے بھی دو خاص تہوار مقرر تھے۔ رسول اللہ نے ان کی جگہ عیدین کے دو تہوار مقرر فرماۓ۔ داستان حرم اور قربانی؛  حضرت آدم سے لیکر محمد عربی صلعم تک تمام پیغمبروں نے حق کی خاطر عظیم قربانیاں دی ہیں اور انسانیت کو راہ راست پر لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی ہیں۔ اس مشن کو عملانے میں ان اللہ کے برگزیدہ بندوں کو کافی مشکلات اٹھانے پڑے ہیں اور کٹھن مراحل سے بھی گزرنا پڑا ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے کھل کر اس مضمون میں بات کی ہے۔ مولانا رومی نظریہ تعلیم و تعلم ؛ اس بلند مرتبت صوفی کی پیدائش تب ہوئی جب عالم اسلام منگولوں کی زد میں تھا اور بغداد کی بربادی کا سبب بھی یہی منگول تھے۔ تمام تحقیق دان اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مولانا نے وقت کے حالات کی نزاکت کو دیکھ کر علمی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے تصوف کے میدان میں چھلانگ مارکر عارفانہ زندگی کو ترجیح دی ہے۔ مختلف صوفیاء کرام نے دنیا کے کونے کونے میں تشکیل اسلامی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون پڑھ کر صوفیاء کرام کی زندگیوں اور کارہائے نمایوں کا خوب احاطہ ہوجاتا ہے۔ اس مضمون سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مولانا ایک آفاقی مفکر اور دانشور تصور کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے دروس سے ہر طبقے کا انسان اپنی استطاعت کے مطابق ضرور مستفید ہو جاتا تھا۔ وادی زمزم سے وادی جہلم تک ؛ وادی زمزم یعنی سرزمین عرب سے اٹھنے والی انبیاء کرام کی صداے توحید آہستہ آہستہ وادی جہلم یعنی وادی گلپوش کشمیر تک کس طرح پہنچی اور کیسے مختلف مراحل طے کرکے وہ کامیاب ہوئی ڈاکٹر الطاف کے اس مضمون میں خوب جھلکتی ہے۔ میر سید علی ہمدانی کشمیر میں روحانیت کے نقیب ؛ کتاب میں شامل جتنے بھی مضمون میں نے اب تک پڑھے، یہ سب سے خوبصورت اور عمدہ ترین ثابت ہوا۔ بہترین انداز بیاں اور انتہائی اہمیت کی حامل معلومات اس مضمون میں درج ہے۔ میر سید علی کے کشمیر آمد سے قبل کے حالات کا بغور جائزہ لیا گیا ہے اور لل دید نے کس طرح خود کو چھپایا تھا جب اس کی نظر مردقلندر علی ہمدانی پر پڑی تھی اس مضمون میں درج ہے۔ اس کے علاوہ حکمران وقت سلطان قطب الدین کے چند مداحی اشعار جو انہوں نے سید علی ہمدانی کی تعریف میں تحریر کئے تھے بھی شامل مضمون ہے۔ شیخ نورالدین عرفان و زہد کے علمبردار ؛ یہ مضمون بھی قابل ستائش اور قابل تعریف اس لئے مانا جائے گا کیونکہ شیخ العالم کی تعلیمات اور پیغام کو سلیس اور بہترین انداز میں قاری تک پہنچانے میں مصنف کامیاب ہوا ہے۔ شیخ نورالدین کے چند اشعار کو شامل مضمون کرنا اور ان کی تشریح بھی مضمون کا حصہ بنانے سے اس تحریر کو مزید متاثر کن بنایا گیا ہے۔ کتاب کا ہر مضمون انتہائی عرق ریزی سے ڈاکٹر صاحب نے تخلیق کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں زبان و بیان پر کافی دسترس حاصل ہے علاوہ ازیں انہیں اسلامی تواریخ، صوفی ازم اور مقامی کلچر کے بارے میں بھی خوب معلومات ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اسلامی زہن رکھنے والا ہر فرد اس تصنیف کا بغور مطالعہ کریں اور ڈاکٹر الطاف حسین کی حوصلہ افزائی کریں۔