یہ خاک بسر لوگ۔۔۔!(افسانہ)



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


افسانہ نگار :. فاضل شفیع/ اکنگام، انت ناگ

موبائیل نمبر: 9971444589

"  بیٹا میں نے ہمیشہ تیری پرورش کے لیے  دن رات محنت کی ہے۔تمہاری ماں کے جانے کے بعد میں نے تمہیں ماں کی کمی ہرگز محسوس نہ ہونے دی ۔میں نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے تجھے اس قابل بنانے کی کوشش کی کہ تم دو وقت کی روٹی کما سکو۔دیکھو....۔۔۔۔ بیٹے ہم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔اس سماج میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔تم کو معلوم ہوگا۔۔۔ میں علی جُو کے یہاں کام کرتا تھا۔علی جُو ایک مکار اور چاپلوس قسم کا انسان ہے۔اس نے ہمیشہ میرے ساتھ نا انصافی کی ہے۔میں جون کی جھلستی گرمی میں پسینے سے شرابور اس کے کھیتوں میں کام کرتا،پھر اس کی کوٹھی کی صفائی کرتا،اور پھر شام کو اس کی مویشیوں کو دانہ پانی ڈال کر تھکا ہارا گھر واپس لوٹتا۔علی مہینے کے آخر میں میرے ہاتھ میں دس روپے تھما دیتا تھا اور کہتا تھا کہ تمہاری اصل اجرت محض پانچ روپے ہیں اور باقی کے پانچ روپے تمہیں قرض کے طور فراہم کرتا ہوں۔میری ساری عمر بیت گئی اور آج جب میری روح میرے جسم سے الگ ہونے والی ہے۔علی جُو کے مطابق میں اس کا مقروض ہوں۔علی جُو کے حساب سے مجھے ہزار روپے لوٹانے ہیں۔بیٹا۔۔۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں اپنی زندگی میں تمہاری شادی نہ کر سکا۔اس بات کا غم میرے دل کی چار دیواری میں ہمیشہ قید رہے گا۔"

مکھن خان  بستر مرگ پر لیٹےاپنے بیٹے نیاز خان سے مخاطب تھا۔

"بابا ۔۔۔میری فکر نہ کرو ۔مجھے معلوم ہے کہ تم نے ہمیشہ اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر مجھے پالا پوسا۔غریبی ہمارا مقدر ہے ۔یہ ہمارا پیدائشی حق بھی ہے۔میں  یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ سماج میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔یہاں کے امیر لوگوں نے روز ازل سے ہی ہمارے ساتھ استحصال کیا ہے۔ہم ان کے جوتوں کی نوک کے برابر بھی نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میں کسی سے آج تک اپنی شادی کی بات نہ کر سکا۔بابا مجھے تمہارے بچھڑنے کا غم اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تمہیں کون سی بیماری ہے۔ میں بس اپنے اللہ سے یہی فریاد کر رہا ہوں کہ تمہاری عمر دراز ہو "

نیاز خان اپنے باپ کے سرہانے زار و قطار رو رہا تھا۔ 

مگر مکھن خان کی روح آسمانوں میں پرواز کر چکی تھی۔وہ ایک بہادر مجاہد کی طرح غریبی کی جنگ سے عمر بھر لڑتا رہا اور آج غریبی کا سہرا اپنے بیٹے کے سر پر باندھ کر وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو چکا تھا۔نیاز خان کے پاس اپنے باپ کی تدفین کے لیے ایک پیسہ نہ تھا۔وہ دوڑ کر علی جُو کے پاس گیا اور پُرنم آنکھوں سے فریاد کی:

"علی چاچا میرے میرے بابا اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔مجھے کچھ پیسوں کی سخت ضرورت ہے تاکہ میں اپنے باپ کے لیے ایک کفن خرید سکوں۔میرے بابا نے اپنی ساری عمر تمہاری خدمت گاری میں گزاری۔میں تمہارے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگ رہا ہوں ۔آج میری لاج رکھو"

"اچھا تو کمبخت مکھن خان مر گیا۔سالا میرا قرض کون چکائے گا۔ خیر چھوڑو یہ لو سو روپے اور اپنے باپ کی تدفین کا کام انجام دو۔"علی جُو نے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

نیاز خان علی جو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے گھر کی جانب چل پڑا اور اپنے باپ کے تجہیز و تکفین کا عمل مکمل کر کے اس کو محلے کے قبرستان میں دفن کیا۔

مکھن خان کی موت کے بعد نیاز خان ایک دم سے اکیلا ہو گیا تھا۔وہ اپنے باپ کی جدائی میں دن رات تنہائی کے عالم میں اپنے چھوٹے سے کمرے میں ایک قیدی کی طرح اپنی زندگی بسر کر رہا تھا۔باپ کی موت نے نیاز خان پر گہرا اثر ڈالا تھا۔کچھ دن گزر جانے کے بعد علی جُو نیاز خان کے کمرے میں نمودار ہوا اور نہایت غصے میں نیاز خان سے مخاطب ہو کر کہا:

"کیوں بے حرامی۔۔۔۔کمرے میں بیٹھ کر آرام کر رہا ہے۔تمہارے باپ کا قرض کون چکائے گا؟ تم کو معلوم بھی ہے کہ مجھے تمہارے باپ سےدو ہزار روپے وصول کرنے ہیں اور تو نکما کمرے میں چھپ کر بیٹھا ہے...چل اٹھ ۔۔۔۔میرے گھر کا کام کون کرے گا ۔۔۔۔تیرا باپ ۔۔۔۔۔سالا وہ تو مر گیا"

علی جُو نے نیاز خان کے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا اور اُس کو گھسیٹتا ہوا اپنے گھر کی جانب چل پڑا ۔

نیاز خان کی عمر اڑتیس برس کے آس پاس تھی۔وہ چھریرے جسم کا مالک تھا لیکن غریبی اور مفلسی نے اس کے چہرے پر جھریوں کا جال بچھا دیا تھا۔وہ نہایت کمزور اور ہمیشہ تھکا ہارا نظر آتا۔وہ دن بھر علی جُو کے کھیتوں پر کام کرتا،شام کو اس کے گھر کی صفائی کرتا اور پھر اس کے مویشیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بخوبی نبھاتا تھا ۔کام ختم کر کے وہ اپنے چھوٹے سے کمرے کا رخ کرتا جہاں کبھی سوکھی روٹی تو کبھی فاقہ کشی کی وجہ سے اپنی قسمت کو کوستا رہتا۔نیاز خان کے دل و دماغ پر یہ بات مسلط تھی کہ وہ عمر بھر علی جُوکا مقروض رہے گا اور اس کی موت کے بعد بھی علی جُو کا قرض اتارنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔

مفلسی انسان کو زندگی کے ایک ایسے مقام پر لا کر کھڑا کرتی ہے جہاں اس کو اپنے آپ سے،خالق کائنات سے ،دنیا کے ذرہ ذرہ سے نفرت ہونے لگتی ہے ۔ایک مفلس انسان ہمیشہ اپنے خالق کو کوستا رہتا ہے ،کبھی اپنے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور جب آدمی اکیلا ہو تو تنہائی میں اپنی قسمت کو کوستا رہتا ہے،اپنی آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب امڑ کر اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرتا ہےٹھیک اسی طرح جس طرح نیاز خان اپنے کمرے میں تنہا اپنے خالق سے شکایت کرتا رہتا ،دن بھر محنت کر کے رات کو خون کے آنسو روتا رہتا۔نیاز خان کی حالت غیر تھی . 

نیاز خان کے ساتھ ظلم و جبر کا یہ سلسلہ جاری تھا۔وہ ایک مظلوم تھا جو چپ چاپ سارے ظلم سہہ رہا تھا کیونکہ وہ ایک بیٹا ہونے کا فرض ادا کر رہا تھا۔

ایک دن نیاز خان پسینے میں شرابور علی جُو کے کھیتوں میں کام کر رہا تھا کہ اچانک وہاں سے گاؤں کے لال میر کا گذر ہوا۔لال میر سارے علاقے میں مشہور تھا کیونکہ اس نے بہت سے ناقص جوانوں،بوڑھوں کی شادی کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔یہ اس کا پیشہ تھا ۔اگر کسی بھی وجہ سے کسی جوان کی شادی نہیں ہو رہی ہو یا کسی جوان میں کوئی بھی عذر مثلاً  لنگڑا، کانا ،گنجا وغیرہ ہو تو لال میر ان سب کے لیے ایک امید  تھا۔وہ بیرون ریاست سے غریب گھرانوں کی لڑکیاں خرید کر ان کی شادی اپنے علاقے کے ضرورت مند آدمیوں سے منھ مانگی قیمت پر کراتا تھا۔کافی کم مدت میں اس کا یہ پیشہ کافی مشہور ہوا اور چند برس میں ہی وہ اپنے علاقے کا ایک معزز اور امیر شہری تو بن گیا لیکن اس نے اپنے پیشے کو کبھی بھی خیر باد نہ کہا ۔

لال میر کی نظر جوں ہی نیاز خان پر پڑی تو اس نے بے ساختہ  مسکراتے ہوئے کہا :

"کیوں نیاز خان ۔۔۔تجھے کنوارا ہی مرنا ہے کیا ؟کبھی اپنی حالت دیکھی بھی ہے ۔۔۔۔اگر گھر میں بیوی ہوتی تو دن بھر محنت کر کے شام کو گرما گرم کھانا نصیب ہوتا ۔۔۔دیکھ تیرے کپڑوں سے کیسی بدبو آرہی ہے ۔۔۔نیاز خان ۔۔۔۔۔۔۔میری مان ۔۔۔۔۔جلدی سے جلدی شادی کر لے ۔میری پوری ہمدردی تمہارے ساتھ ہے۔میں تجھے کنوارا مرنے نہیں دوں گا "

"شادی اور میں ۔۔۔کیوں مذاق کر رہے ہو چاچا ۔۔۔مجھ غریب اور مفلس کے ساتھ کون شادی کرے گا۔چاچا مجھے اپنی ساری عمر اپنے باپ کا قرض ادا کرنا ہے۔اپنی بیوی کو کیا کھلاؤں گا،اس کے اخراجات کیسے برداشت کر پاؤں گا ؟میں نے یہ مضحکہ خیز خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں ۔شادی اور میں ۔۔۔نہیں چاچا نہیں " نیاز خان کے لہجے میں لجاجت تھی ۔

"ارے برخوردار ...وہ سب مجھ پر چھوڑ دے ۔علی جُو کے ساتھ میرا پرانا یارانہ ہے ۔میں علی جُو سے تمہاری شادی کا پورا خرچ وصول کروں گا ۔ویسے بھی تجھے عمر بھر علی جُو کا غلام بن کے رہنا ہے۔اب اگر تیری شادی بھی ہو جائے تو کیا حرج ہے ۔تو دولہا بننے کی تیاری شروع کر ،میں تیرے لیے ایک بہترین دلہن کا انتظام کروں گا ۔چلتا ہوں اللہ حافظ "لال میر نے اپنا رخ علی جُو کی کوٹھی کی جانب کیا ۔

نیاز خان اسے مذاق سمجھ کر اپنے کام میں لگ گیا اور جب شام کو حسب معمول وہ علی جُو کی کوٹھی کی صفائی کر رہا تھا تو وہ اچانک علی جُو اس کے سامنے نمودار ہوا اور کہنے لگا :

"کیوں بے حرامی۔۔سنا تو شادی کرنے جا رہا ہے ۔خیر بات بھی اچھی ہے ۔لال میر تیری شادی کے لیے مجھ سے پانچ ہزار روپے وصول کر چکا ہے اور ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرسوں تمہاری شادی ہے۔میں نے درزی کو بول دیا ہے کہ تیرے لیے ایک نیا جوڑا کپڑا سلوا کے رکھے اور ہاں شادی کے بعد تم دونوں میاں بیوی میرے گھر پر ہی کام کرو گے۔۔سمجھ گئے گدھے "

نیاز خان متحیر تھا۔وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا۔

علی جُو کے کہنے کے مطابق ٹھیک دو دن بعد نیاز خان کو ایک نیا جوڑا کپڑا پہنا دیا گیا۔علی جُو کی کوٹھی پر ایک امام صاحب بھی تھا۔لال میر ایک برقعہ پوش خاتون کے ہمراہ علی جُو کی کوٹھی میں وارد ہوا۔امام صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کیا اور چند ہی منٹوں میں نیاز خان اور جبین بانو کا نکاح مکمل ہو چکا تھا ۔نیاز خان کو لگ رہا تھا کہ شاید وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے لیکن چند ثانیوں بعد ہی علی جُو نے جبین بانو کا ہاتھ نیاز خان کے ہاتھ میں تھما دیا اور انہیں ایک دن کی چھٹی دے دی ۔

نیاز خان جبین بانو کے ہمراہ اپنے چھوٹے سے کمرے کی جانب چل پڑا ۔راستے میں دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی۔کمرے میں پہنچتے ہی نیاز خان نے جیبین بانو سے بات کرنی چاہی لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ جبین بانو کسی دوسری ریاست کی زبان بول رہی تھی۔نیاز خان نے اب اشاروں میں جبین بانو کو سمجھانے کی کوشش کی۔جبین بانو نے جیسے ہی اپنا برقع اتارا تو نیاز خان کے پاؤں تلے زمین سرک گئی۔وہ کوئی چالیس،پچاس  سالہ خاتون تھی۔اس کی رنگت اور خدوخال یہاں کے لوگوں سے بالکل مختلف تھا۔نیاز خان اب سمجھ گیا تھا کہ لال میر نے محض اپنے مفاد کے لیے اس کے ساتھ گھناونا کھیل کھیلا تھا۔

نیاز خان اور جبین بانو کی باتیں اشاروں اشاروں میں ہوتی رہی۔جبین بانو نے اپنے ہاتھوں سے کھانا پکایا۔آج زندگی میں پہلی مرتبہ نیاز خان نے کسی عورت کے ہاتھ کا کھانا کھایا تھا۔ اس کو بڑا سکون میسر ہوا۔اگلے دن دونوں میاں بیوی علی جُو کی کوٹھی پر علی الصبح حاضر ہوئے ۔نیاز خان حسب معمول کھیتوں کی طرف گیا اور جبین بانو نے علی جُو کی کوٹھی کی صفائی کا عمل شروع کیا ۔

دن گزرتے گئے ۔نیاز خان علی جُو کے قرض میں ڈوب چکا تھا۔اب گھر کی صفائی اور مویشیوں کے دیکھ بھال کی ذمہ داری جبین بانو کے سپرد تھی۔نیاز خان کھیتوں میں کام ختم کر کے سیدھے جبین بانو کے ہمراہ اپنے گھر کا رخ کرتا ۔گھر پہنچتے ہی نیاز خان جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر تھوڑے بہت پیسے کما لیتا تھا جس سے وہ اپنی بیوی اور گھر کے اخراجات کچھ حد تک پورے کر پا رہا تھا ۔

ایک دن سورج غروب ہوتے ہی جب شام نے اپنا ڈیرا ڈال دیا تھا ،نیاز خان حسب معمول جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا کہ اچانک ریچھ نے نہتے نیاز خان پر دھاوا بول دیا۔ریچھ نے نیاز خان کے چہرے پر وار کیا اور اس کو اپنے مضبوط پنجوں میں جکڑ لیا ۔نیاز خان بے یار و مددگار زور زور سے چیخنے لگا۔پاس ہی موجود کچھ لوگ بڑی تیزی سے نیاز خان کی مدد کے لیے دوڑے۔ریچھ تو بھاگ گیا لیکن نیاز خان کا چہرہ خون میں لت پت تھا۔ اس کا ایک بازو بے کار ہو چکا تھا۔لوگوں نے نیاز خان کو لے کر سیدھے ہسپتال کا رخ کیا۔جبین بانو کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ بھاگ کر ہسپتال پہنچی ۔اپنے خاوند کی حالت دیکھ کر اس نے ایک غیر متوقع فیصلہ لیا۔وہ اب نیاز خان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ نیاز خان اب غریب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ناقص انسان بھی تھا۔وہ اب مزدوری کے قابل بھی نہ تھا۔جبین بانو نے اس نازک موڑ پر اپنے شوہر کا ساتھ دینا مناسب نہ سمجھا اور اس نے اپنی ریاست کا رخ کیا۔

علی جُو کو جب  نیاز خان کے بارے میں خبر ہوئی تو وہ غصے سے بے حال ہوا ۔اس کا چہرہ سرخ ہوا اور اس کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک نمودار ہوئی۔طیش میں آکر علی جُو نے نیاز خان کا وہ چھوٹا سا کمرہ اور اسکی  تھوڑی بہت زمین ہڑپ لی کیونکہ بقول علی جُو نیاز خان اس کا مقروض تھااور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اس نے یہ قدم اٹھایا تھا  اور گاؤں کے معزز لوگوں نے علی جُوکا ساتھ بخوبی نبھایا۔

نیاز خان ہسپتال میں پڑا ان سب چیزوں سے بے خبر تھا۔وہ اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔بالآخر ڈاکٹروں کی محنت سے نیاز خان زندگی کی بازی جیتنے میں کامیاب تو ہوا لیکن وہ اپنا سب کچھ کھو چکا تھا۔وہ اب ایک ناقص انسان تھا جس کی بیوی اس کا گھر چھوڑ کر بھاگ چکی تھی اور اس کی تھوڑی سی جائیداد پر علی جُو قابض ہو چکا تھا۔

ہسپتال سے چھٹی ملتے ہی نیاز خان کے ایک پڑوسی نعیم خان نے بخوبی اپنا پڑوسی ہونے کا حق ادا کیا ۔نعیم خان نے نیاز خان کی کافی دل جوئی کی اور اس کو اپنے گھر لے کر آگیا۔نعیم خان نے چند دنوں میں نیاز خان کے خاطر گھر گھر جا کر تھوڑا بہت چندہ جمع کیا اور گاؤں کی سرکاری اراضی پر نیاز خان کے لیےایک ٹین شیڈ کی تعمیر کا کام مکمل کیا اور نیاز خان کو رہنے کے لیے ایک نیا گھر ملا  ۔

نیاز خان کو ٹین شیڈ میں منتقل کیا گیا۔اس کے کھانے پینے کی ساری ذمہ داری نعیم نے اپنے سر لی ۔نیاز خان کا چہرہ پوری طرح سے بے کار ہو چکا ہے اور اس کا ایک بازو بھی کاٹ دیا گیا ہے ۔نیاز خان اسی شیڈ میں اپنی بقایا زندگی کا سفر کاٹ رہا ہے ۔اس کو جبین بانو کی بے وفائی سے کوئی گلہ نہیں ہے ۔وہ اس بات سے خوش ہے کہ اس کے باپ کا قرض بالآخر ختم ہو چکا ہے۔نیاز خان علی جُو اور یہاں کے لوگوں سے بھی ناراض نہیں ہے۔وہ بس تاریک کمرے میں اپنے خدا سے شکایت کر رہا ہے جس نے اُسے ایک غریب اور مفلس گھر میں پیدا کیا۔وہ اس گھڑی کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے جب اس کی روح کا ملن اس کے باپ  مکھن خان کی روح سے ہوجاۓ  اور وہ فخریہ انداز میں اپنے باپ سے کہے :

" بابا بابا ۔۔۔میں نے شادی بھی کر لی اور آپ کا سارا قرض بھی ادا کیا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!