ڈاکٹر سے پاگل



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


|||||||||||....... ✍️:... ضیاء چترالی 

عبد الوہاب دعدوش کھاتے پیتے گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ ماں باپ کا لاڈلہ۔ تعلیم میں ہمیشہ امتیازی نمبر لیتا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر بن کر لوگوں کا علاج اور ان کے درد کا درماں کرے۔ یہی خواب آنکھوں میں سجائے یہ سجیلا نوجوان 20 سال کی عمر میں اپنی چھوٹی سی بستی سے نکلا، وہ حماۃ کی طرف روانہ ہوا تاکہ میڈیکل کالج کا اہم امتحان دے سکے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ قدم اس کے خاندان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا روگ بن جائیں گے۔ دعدوش حماۃ سے کبھی واپس نہ آسکا۔ سال و مہہ کی گردش جاری رہی۔ ماں کی آنکھیں دروازے پر لگی ہوئیں کہ چاند کب طلوع ہوگا۔ وہ ہر روز بستی سے باہر نکل کر اس کا انتظار کرتی۔ مگر عبد الوہاب واپس نہ آسکا۔ دکھیاری ماں اس کے فراق میں آنسو بہاتی رہتی۔ آہستہ آہستہ تمام امیدیں دم توڑ گئیں۔ ماں کی بے نور آنکھیں آنسوؤں کا بوجھ نہ اٹھا سکیں۔ بالآخر اس کی بینائی ختم ہوگئی۔ وہ گھر کی دیواروں کو ٹٹولتی رہتی، لخت جگر کی موجودگی کے کسی نشان کو تلاش کرتی رہتی۔ 13 سال کے بعد خبر آئی: "عبد الوہاب صیدنايا کی جیل سے رہا ہو گیا ہے۔" ماں اپنی باقی بچی ہوئی طاقت کے ساتھ دوڑ پڑی، وہ دمشق پہنچ گئی، لیکن جب ایک ڈھانچے کی طرف اشارہ کرکے اسے بتایا گیا کہ یہ عبد الوہاب دعدوش ہے تو وہ اس سے لپٹ گئی، مگر دعدوش اپنی ماں کو نہ پہچان سکا۔ وہ مذبح میں مکمل طور پر پاگل ہو چکا تھا۔ پہلے تو اہل خانہ بھی نہ پہچان سکے، قبر سے برآمد ایک لاش، ایک بے حس و بے سدھ ڈھانچہ ان کے سامنے تھا۔ اجنبی، زرد اور تھکا ہوا چہرہ، جس کے انگ انگ سے درد و الم کے قطرے ٹپک رہے تھے، یہ وہی عبد الوہاب ہے، جس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی ہے؟؟ مگر غور سے دیکھنے پر ان کا شک یقین میں بدل گیا۔ عبد الوہاب رہا تو ہوا، لیکن وہ اپنی عقل اور یادداشت کھو چکا تھا۔ اسے تو اپنا نام بھی یاد نہ تھا۔ اس کی نظریں خالی تھیں، جیسے مذبح میں اس کی نہ صرف آزادی بلکہ پوری زندگی چھین لی گئی ہو۔ یہ صدمہ شدید تھا۔ ماں جس نے 13 برسوں تک اس کی واپسی کا انتظار کیا تھا، اسے پایا لیکن وہ اسے پہچان نہ سکا۔ اس کا جسم تو موجود تھا، لیکن اس کی روح سلاخوں کے پیچھے کہیں کھو چکی تھی۔ عبد الوہاب نیا شادی شدہ تھا۔ 13 برس قبل جس وقت وہ گھر سے نکلا تھا، اس کی دلہن امید سے تھی۔ اب اس کا بیٹا 13 سال کا ہے، مگر باپ اسے پہچاننے سے قاصر۔ اس طرح کے سینکڑوں عبدالوہاب ہیں، جو بشار کے زندانوں کی تاریکیوں میں گم ہوگئے۔ جو مل گئے تو صرف خالی جسم کے ساتھ۔ (عبد الوہاب کے اہل خانہ اس کا علاج کرا رہے ہیں، اللہ کرے کہ وہ صحت یاب ہو)

باقی زہراء اور اس جیسی سینکڑوں خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس پر لکھنے کا یارا نہیں ہے۔ نہ ہم قلم کے ایسے شہسوار کہ ان المناک داستانوں کو الفاظ کا درست پیراہن پہنا سکیں۔