عندلیبِ حمص: بھی اسد کی سفاکیت کا شکار ہونے سے نہیں بچی
- noukeqalam
- 185
- 12 Dec 2024
"طل دوسر خالد الملوحی" حمص کی عندلیب ہے۔ شاعرہ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور بلاگر۔ اس چہچہاتی چڑیا کی آواز آمر وقت سے برداشت نہیں ہوئی۔ 17 سال کی عمر میں پکڑ کر آہنی قفس میں بند کر دیا گیا۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے اک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے اک نہتی لڑکی سے
طل 4 نومبر 1991 کو حمص شہر میں پیدا ہوئی۔ اپنی تحریروں اور بلاگز مشہور ہوئیں، جن میں اس نے سیاسی اور سماجی موضوعات کو اجاگر کیا۔ ابھی وہ یونیورسٹی میں داخلہ کی تیاری کر رہی تھی کہ گرفتار ہوگئی۔ 27 دسمبر 2009 کو شامی حکومت کے اسٹیٹ سیکورٹی ڈپارٹمنٹ نے طل الملوحی کو اٹھالیا۔ اس معصوم پرندے پر جاسوسی اور غیر ملکی قوتوں کے ساتھ روابط کے الزامات لگائے گئے، جسے ان کے اہل خانہ اور حمایتیوں نے سختی سے مسترد کیا۔ 14 فروری 2011 کو، طل الملوحی کو ایک جعلی عدالت نے "ایک غیر ملکی ریاست کو معلومات فراہم کرنے" کے الزام میں 5 سال قید کی سزا سنائی۔ اس کی گرفتاری اور سزا نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کو جنم دیا اورانہوں نے اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ طل الملوحی کی کہانی ان ہزاروں شامی قیدیوں کے لیے ایک آئیکون بن گئی ہے جنہیں آزادی اظہار یا حکومت کی مخالفت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔ 24 اکتوبر 2013 کو دمشق کی فوجداری عدالت نے طل الملوحی کی سزا کی مدت کے چوتھائی حصے کی معافی کے لیے دائر درخواست منظور کر لی، لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس کے بجائے، اسے دمشق کی عدرا سینٹرل جیل سے قومی سلامتی کے دفتر (مكتب الأمن القومي) منتقل کر دیا گیا، جہاں اس نے کئی مہینے گزارے۔ بعد میں اسے دوبارہ عدرا جیل واپس بھیج دیا گیا اور اس کے بعد اس کی خبریں مکمل طور پر منقطع ہو گئیں۔ اس دوران شامی مرکز برائے صحافت اور آزادیٔ اظہار نے اطلاع دی کہ طل الملوحی کی جسمانی اور ذہنی حالت خراب ہے۔ وہ نظامِ ہضم کی بیماریوں اور غذائی قلت کا شکار ہے، جس نے اس کی صحت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، طل الملوحی کے بلاگ میں صرف چند اشعار اور معاشرتی حالات پر تبصرے شامل تھے۔ اس کی تحریروں میں فلسطینی عوام کی حالتِ زار پر بھی گفتگو کی گئی تھی، لیکن ان میں شام کی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں کوئی براہ راست مواد نہیں تھا۔ طل الملوحی کی گرفتاری اور اس کے ساتھ کیے جانے والے سلوک نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا اور اس کی رہائی کے لیے کئی بین الاقوامی مطالبے کیے گئے۔ مگر آمر ٹس سے مس نہیں ہوا۔ طل کی کہانی بشار کے جبر اور آزادیٔ اظہار پر پابندیوں کی ایک مثال بن گئی۔
27 دسمبر 2011 کو طل الملوحی نے بھوک ہڑتال شروع کی، جس میں اس نے اپنی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: "گرفتاری کے دو سال گزرنے کے بعد، جن میں مجھے قید کی سختیاں اور آزادی سے محرومی کے کرب کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ میری ساکھ کو بھی تباہ کیا گیا، میں رہائی کے لیے اور اپنی گرفتاری کے المیے کو ختم کرنے کے لیے بھوک ہڑتال کا اعلان کرتی ہوں۔ میرا یہ اقدام آپ کے ضمیر کو جگانے کی ایک کوشش ہے، تاکہ میرے دکھوں کو ختم کیا جائے اور میری گرفتاری کے المیے کا خاتمہ کیا جائے۔"
اس کے بعد طل کے بارے میں مکمل خاموشی چھا گئی، خیال یہی تھا کہ اسے کسی گمنام قبر میں اتارا جا چکا ہے۔ لیکن طل عدرا جیل کے کسی سیل میں موت کی منتظر تھی کہ زندان کا گیٹ کھول دیا گیا۔ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر طل الملوحی کی عدرا جیل سے رہائی کی خبر گردش کرنے لگی۔ یہ رہائی اس وقت ممکن ہوئی جب شامی حزب اختلاف نے "ردع العدوان" معرکہ شروع کیا، اس مہم کے ابتدائی دنوں میں جانبازوں نے ادلب، حلب، حماہ، اور حمص پر قبضہ کر لیا۔ 8 دسمبر 2024 کو حزب اختلاف نے اعلان کیا کہ انہوں نے تمام جیلوں سے قیدیوں کو آزاد کروا لیا ہے اور بشار الاسد کی حکومت کو گرا دیا ہے۔ اس دوران حکومتی افواج وزارت دفاع، وزارت داخلہ، اور دمشق بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پیچھے ہٹ گئی تھیں۔ طل الملوحی کی رہائی شامی عوام کے لیے ایک اہم لمحہ تھی، جو جبر، ظلم اور آزادی کے لیے جدوجہد کی علامت بن چکی تھیں۔
( مزکورہ مضمون ایک صارف کی فیس بک وال سے لیا گیا ہے)