علمیٰ افروز اعلیٰ آفسر ہو تو ایسا؟



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


✍️:..... ش  م  احمد  /سری نگر

7006883587

علمیٰ افروز (آئی پی ایس ہماچل پردیش کے ضلع بدی میں تعینات

  ۳۳؍سالہ ایس پی رینک کی پولیس آفسر ہیں اور آج کل میڈیا کے بہت زیادہ چرچے میں ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ علمیٰ صاحبہ کی ریاست کی کانگریسی سرکار سے ٹھن گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں کہیے کہ ان کی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بنتی ۔ خبروں کے مطابق ا نہوں نے ضلع بدی کی پولیس قیادت سنبھا لتے ہی اپنےحدود ِ کار میں آنے والے علاقوں میں طرح طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں خاص کر منشیات کے کاروبار میں ملوث مجرمین اور اُن کے آقاؤں کے خلاف شدومد سے اپنا کریک ڈاؤن شروع کیا ‘ اسی کے چلتے تسلسل کے 

ساتھ مجرموں کا تعاقب جاری رکھا ۔ انہوں نے ایک بار بھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا کہ پولیس کر یک ڈاؤن کے شکار حکمران پارٹی کے نیتا بنتےہیں یا عام عادی مجرم۔ بتایا جاتا ہے کہ علمٰی کا روایت شکن کرداربرسرقتدار کانگریس کے لئے بوجوہ پریشانیوں کا باعث بنا ۔  مبینہ طور پارٹی کی خواہش تھی کہ اپنے شکاروں کے خلاف علمیٰ کا پولیس ایکشن نرم یا دھیما پڑجائے ‘ خاص کر ایک دبنگ کانگریسی ایم ایل

 اے کو قطعاً نہ چھیڑا جائے مگر ایس پی بدی نے رُولنگ پارٹی کی ایک نہ سنی‘ سیاسی مداخلت کو درخوراعتناہی نہ لایا‘ سیاسی اثر ورسوخ اورسفارشی کلچر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا کریک ڈاؤن جاری رکھا ۔اُن کا واحد ہدف یہ تھا کہ اپنے حد اختیار میں آنے والے علاقے سے منشیات کا بدترین ناسور جڑ سے اُکھاڑ پھینکوں تاکہ نشے کی لت اور بری عادت کے جان لیوادلدل میں گرفتار نوجوانوں کو اس بلائے ناگہانی سے مکمل طور چھڑالیا جائے۔ا یسا کر تے ہوئے ایس پی صاحبہ نے ایک ثانیے کے لئے بھی اپنے منصبی فرض سے کوئی تساہل نہ برتا۔ بتایا جاتاہے کہ اقتدار کی گلیاروں میں خاتون پولیس آفسر کی فرض شناسی اور تحرک وفعالیت کا بہت شوروغوغا سنا گیا اور ایک اعلیٰ عہدیدار کا یہ رول ماڈل چہرہ برسراقتدارکانگریس پارٹی کےایک رسوخ دار ممبر اسمبلی کے لئے درد سر بنا۔ باوجودیکہ اُنہوں نے اعلیٰ  حکام کے ذریعے بڑا زور لگایا مگرعلمیٰ کسی بھی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ڈرگ مافیا اور مائنگ اسمگلروں کو کیفر کردار تک پہنچاننے سے بازآئیں نہ اپنے اصولوں سے کوئی سمجھوتہ کر کے پاک مشن سے اعراض کیا ۔ الغرض بدی ضلع کے کسی بھی ایک قانون شکن مجرم کو نہیں بخشا گیا‘چاہے اُس کی پہنچ کتنے ہی دبنگ سیاست دانوں تک ہو۔ علمٰی کے پاس جرائم کی دنیا کے طاقت ور ڈانوں کی گردنیں قانون کے شکنجے میں دبوچنے کے لئے جو ہتھیارفرض شناسی‘ ایمانداری‘ جرأت مندی‘ حُب الوطنی کی صورت میں موجود تھے‘ اُن کا استعمال ایس پی موصوفہ نے بجا طور پورے سپاہیانہ ا سپرٹ کے ساتھ کیا اور تب تک چین کی سانس نہ لی جب تک جیل کی کال کوٹھری میں غلط کار عناصر کو  ٹھونس نہ دیا۔ اُن کے جہد ِ مسلسل سے اُن نوجوانوں کو نشے کی ذلت سے کم ازکم چھٹکارا ملا جن کی نشہ بازی سے کئی زندگیاں اَجیرن بنی تھیں۔ افسوس کہ ڈرگ مافیا کے غیر قانونی کاروبار کے ہتھے چڑھ کر ان کی اُ ٹھتی جوانیاں داؤپر لگی تھیں۔ ان جوانوں کے والدین اور اقر با علمیٰ کے لئے دست بدعا ہیں کہ کم ازکم انہوں نے ایک فرشتہ صفت قابل و بہادر بیٹی کو پولیس وردی میں دیکھا جن کے دم قدم سے ان کے بچے جہنم سےواپس مڑکر ذمہ دار شہری زندگی کے دھارے سے سر نو جڑ گئے ۔ ظاہر ہے ایک ایماندار اور ہونہارپولیس آفسر کے یہ باغیانہ لچھن کسی بھی حکمران جماعت کے لئے درد ِ سر ثابت ہوتے ہیں کیونکہ سیاست کے دیروحرم میں مافیاؤں کا اثر ونفوذ عصری عالمی سیاست کی ایک تند وتلخ حقیقت ہے ۔ لہٰذا علمیٰ کوبھی اپنی فرض شناسی کا ’’صلہ‘‘ ملنا ہی ملنا تھا۔ اُنہیں ریاست میں اقتدار و اختیار کے مالکان نے ڈیوٹی سےفارغ کیا‘ لمبی چھٹی پر گھر بھیج دیا اور کہا جاتا ہے اُن کی جگہ پر متبادل انتظام بھی کیا گیا ۔ بہر کیف تادمِ تحریر علمیٰ صاحبہ اپنی بیمار والدہ کے ہمراہ مراد آباد میںرہ بس رہی ہیں۔

  کانگریس پارٹی سالہاسال سے کورپشن کے خلاف بر سرپیکار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور مرکز میں سنگھاسن پر براجمان بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف اپنےسیاسی معرکے کا پہیہ ہمہ وقت کورپشن کے موضوع کے گرد گھماتی رہتی ہے۔رَفال سودا ہو یا الیکٹورل بانڈز کا معاملہ‘ پیگاسس کا ایشو ہو یا اڈانی کے بارے میں ہنڈن برگ کے سنسنی خیزا نکشافات یا اَربوں روپے کی رشو ت ستانیوں کے حوالے سے ایک امریکی عدالت سے گوتم اڈانی اور اُن کے بھتیجے کے خلاف  گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کاقضیہ ہو‘جس پر کانگریس آج کل مشترکہ پارلیمانی جانچ کمیٹی( جے پی سی ) بنانے کے لئے ایوان میں مسلسل اپنامطالبہ زوروشور سے اٹھارہی ہے مگر پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہماچل پردیش میں اسی پارٹی کی ناک کے نیچے ایک فرض شناس اعلیٰ پولیس افسر کو اپنے فرائض کی بے ریا ادائیگی سے مبینہ طور سرکار کی طرف سے روکا جارہاہے؟ اگر کانگریس واقعی ملکی سیاست میں حق وانصاف کی لڑائی لڑنےاور بدعنوانی مخالف محاذپر خلوصِ دل سے مصروفِ عمل ہے تو ایچ پی حکومت کی طرف سےعلمیٰ کو اعلیٰ کارکردگی کا پُرسکار اور تمغہ ملنا چاہیے تھا ‘ چہ جائیکہ یہ اُلٹی گنگا بہےکہ اُن کی حوصلہ شکنی کی جائے؟ کیا اُنہیں حکومت کی طرف سےبِن مانگی رُخصت پر گھر بھیجنا کسی صورت واجب اور جائز قر ار دیا جاسکتا ہے ؟ کیا کانگریس کے اعلیٰ کمانڈ کو اولین فرصت میں اپنی ریاستی قیادت کی فہمائش نہیں کرنی چاہیے تھی کہ علمیٰ جیسی مثالی پولیس افسروں کو زیادہ سے زیادہ مجرموں کے خلاف صف آرا ہونی کی کھلی آزادی دے دوتاکہ کورپشن کے خلاف راہل گاندھی جیسے فعال قائد حزبِ اختلاف کی چُومکھی سیاسی لڑائی محض زبانی جمع خرچ ثابت نہ ہو۔ خاص کر پرینکا گاندھی صاحبہ کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے تھا کہ علمٰی افروز نے اُن کے جاذب ِ نظر نعرے’’ میں لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘‘ کے عمدہ نعرے کی جس طرح عملاً لاج رکھی ہوئی ہے‘ ایک خاتون ایس پی کے ناطےان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے پرینکا گاندھی کو علمیٰ کی سراہنا کی جا نی چاہیے تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایم پی صاحبہ نہ جانتی ہوں کہ یہ وہی علمیٰ ہیں جنہوں نے اپنے دائرہ کار میں آنے والے علاقے کو نشے سے نجات دلانے کی جو کامیاب جنگ ڈرگ مافیاکے خلاف چھیڑ دی اس کا لوگ باگ دل کی عمیق گہرائیوں سے استقبال کر رہے ہیں ؟ ان کے اس ایک نتیجہ خیز مفیداقدام سے کئی گھرانوں کے چشم وچراغ موت کی وادی سے واپس لوٹ کر منزلِ حیات پانے میں لگ گئے‘ بھلے ہی بعض خود غرض حکومتی کارندوں کو اُن کی گھرواپسی میں اپنے کالےبازار کی مندی ‘ مالی و سیاسی خسارہ نظر آیا مگر عوام الناس میں ا س اقدام سے ایک اچھا پیغام گیا کہ انتظامیہ میں کچھ ایسے صحت مند کل پُرزے ضرور موجود ہیں جو عام آدمی کی حقیقی بھلائی اور پراپرجائی کی تڑپ دل ودماغ پر حاوی رکھے ہوئے ہیں ۔

 ایس پی صاحبہ نے اپنے ضلع میں مجرموں کے خفیہ ٹھکا نوں کا سراغ لگانے ‘ اُن کا اَنتھک پیچھا کرنے میں ہی اپنا قیمتی وقت صرف نہ کیا بلکہ بہ حیثیت سماجی خدمت گار بھی اپنے مصروف اوقات میں چند لمحات عاریتاً لے کر کچی بستیوں اور جگی جھونپڑیوں کا رُخ کیا‘یہاں کے نونہالوں کے من میں دبی محرومیوں اور احتیاجوں کا آنسو رُلانے والے احساس اپنےدل کے نہاں خانے میں اُتار ا ۔ آٹھوں پہرمٹی  دُھول میں اَٹے رہنے والےان بے نوا بچوں بچیوں کو اپنے ساتھ کھیلنے کود نے اور ہنسنے مسکرانے کا حیات آفرین موقع دینا علمیٰ کی بڑی عبادت کہلاسکتی ہے ۔ یہ سب اُن کی انسان دوستی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ اپنے اس خوبصورت طرزِعمل سے ایس پی صاحبہ نے اپنی انسانیت نوازی کی گہری چھاپ مقامی لوگوں میں ڈال دی اور اُن سے بے محابہ عقیدتوں ومحبتوں کااعزاز پایا ۔ اس نوع کا اعزاز عموماً پبلک سے براہ ِراست ربط وتعلق رکھنے والے بہت کم اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو نصیب ہوتا ہے ۔ علمیٰ جی کا اپنے علاقے کے غریب اور بے یارومددگار بچوں کو پیار ومحبت سے دفتر میں جمع کر نا اور بے ریائی کے ساتھ کچھ دیر اُن سے گھل مل جانا ‘ ان نادار بچوں اوربچیوں کے معصوم دل میں انسانی سماج کے دھارے سے جڑے ہرنے کا احساس جاگزین کرنا ‘ اُن میں پڑھنے لکھنے اُچھلنے کودنےکا شوق پیدا کرنا بلکہ دنیا جاننے کے اشتیاق سے انہیں بہرہ ورکر نا‘ کیا یہ ساری چیزیں محترمہ کے ذُود حس ہونے ‘ اعلیٰ پایہ انسانی سوچ کی حامل ہونے اوربصیرت وبصارت کی بہترین صلاحیتوں کاحامل ہونے کے علاوہ اُن کے بہترین گھریلو پس منظراوراخلاق نشونما پر دلالت کر تی ہیں ؟ بالکل سو فی صدکا نگریس کی اعلیٰ کمان اگر سچ مچ عوامی جذبات کی ہم نوا وہم قدم ہے اور چاہتی ہے کہ پارٹی کی ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘اور’’ بھارت نیائے یاترا‘‘محض ایک سیاسی اُچھل کود بن کر نہ رہے تو اسے اپنے زیر اقتدار ریاستوں میں اپنے انتظامی مشنری میں علمیٰ افروزجیسے مثالی عہدیداروں کی عزت افزائی کر نے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ شاید کانگریس کی قومی لیڈر شپ کو یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ جس جوش اور ولولے کے ساتھ علمیٰ نے اپنی پولیس وردی اور منصب کے ساتھ غیر مشرو ط وفا نبھائی‘ اس بابت انسانی عقل اور سیاسی فہم وتدبر کا تقاضا ہے کہ ایسی حسن ِ کارکردگی کو کسی اعلیٰ افسر کا ’’قصور‘‘ نہیں بلکہ اسے ایک قابل صد ستائش رول ماڈل کے طور پیش کیا جا نا چاہیے ‘نہ کہ ان عمدہ اوصاف کو کسی ایم ایل اے کی انا کی تسکین کا نرم نوالہ یا سیاسی مصلحتوں کے گورکھ دھندے کا چارہ بنایا جائے۔ کتنی حماقت کی بات ہے کہ ایس پی علمیٰ کے بارے میں جب کھلے اور چھپے سیاسی رقیبوں کو اُن کی روشن ضمیری کے خلاف کہنے کو کچھ نہ ملا تو انہوں نے جھٹ سے یہ شوشہ پھیلایا کہ مسلمان ہونے کے ناطے وہ دھرا دھڑ اپنے ہم مذہبوں کو گن لائنسز فراہم کرتی ہیں مگر نامرادوں کو یہاں بھی منہ کی کھانی پڑی کیونکہ سرکاری دستاویزات اس بے سروپا الزام کی تردیدمیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے دور میں نوے سے زائد غیرمسلموں کے نام گن لائسنز جاری کئے گئے جب کہ صرف دو مسلمانوں کے لائسنز کی مدت ہونے کے بعد ان کی تجدید کرائی گئی ۔ علمٰی کی بے لوث حمایت میں ہماچل کے سابقہ وزیراعلیٰ شانتا کمار نے اپنی آواز بلا وجہ بلند نہیں کی ہے بلکہ یہ اس بات کا زندہ احساس ہے کہ ایک ایماندار افسر کی حوصلہ شکنی پورے نظام کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ایک اچھی کارکردگی والے سرکاری منصب دار کی حوصلہ افزائی اور شاباشی پورے عوام اور نظام سے محبت کا لازمہ ہوتا ہے۔ علمیٰ کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا دُکھڑا تاحال سنانے سے باز رہیں بلکہ آج بھی وہ کسی دباؤ یا کسی نظریۂ ضرورت کے تحت نہیں بلکہ دل کی  سچائی و بے ریائی اور پورے فخر کے ساتھ مجالس میں جے ہند کا نعرہ  دل نواز مسکراہٹ سے اپنے مخاطبین سے لگواتی ہیں ۔

 علمیٰ کی زندگی ابتدا سے ہی انتہائی محنت و مشقت میں گزری ۔ وہ چھوٹی بچی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھا ‘انہوں نے ہمت ہاری نہ اُن کا حوصلہ ٹوٹا‘ زندگی کے نئے نئے چلنجز کو والدہ کی نگرانی میں خندہ پیشانی کے ساتھ قبولا ‘ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی جی کیا ‘ امریکہ پہنچیں ‘ وہاں جاکرپھر قصد کیا کہ وطن واپس آکر عوام کی خدمت کے لئے وقف رہوں گی۔ یہاں آئی پی ایس کا قومی سطح کا امتحان اور انٹرویو کوالیفائی کیا اور اب بدی ضلع میں ایس پی کے عہدے پر فائز ہیں ۔   

 یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دنیا بھر میں غیر قانونی سرگرمیوں پر کارگربریک لگانے کے لئے سخت سے سخت قوانین اور تعزیرات کی ضخیم کتابوں کی کہیں بھی کمی نہیں ‘ مجرموں کے لئے جیل خانہ جات و حوالات کی بھی کوئی کمی نہیں مگر ان اہتمامات کے باوجود ڈنڈی ماری‘ رشوت ستانی ‘ جسم فروشی‘ قتل وخون‘ ڈَرگ مافیا ‘ منشیات فروشی‘ اسمگلنگ اور معصوم بچوں بچیوں کو نشہ بازی کی اندھیری دنیا میں دھکیلنے والےشرپسند عناصر کا بال بھی بیکا کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ میری دانست میں اس کا ایک مختصر جواب یہ ہے کہ انسانیت کے   نامی گرامی دشمن قانون اورسماج کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر اپنا دھندا کھلے عام یا پوشیدہ طور چلاتے جارہے ہیں ۔ان کے شکار ان کے ہاتھوںلُٹ کر رات کی نیند اوردن کا آرام کھو جاتے ہیں مگر خود  یہ شرپسند مجرم اپنے دن عیاشی میں گزارتے ہیں‘راتیں پاؤں پسارے آرام سے سوتے ہیں کیونکہ جب تک اُن کی سانٹھ گانٹھ دنیائے سیاست کے گرانڈیلوں سے ہے کوئی مائی کا لال اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دنیا میں وقت کے زیادہ تر نیتا اور حکمران ہی سماج دشمنوں کی پشت پناہی میں آگے آگے ہوتے ہیں جو اپنے نجی مفادات کی پوجا پاٹھ میں ہر قبیل کے مجرموں پراپنی طاقت اورحمایت نچھارو کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے سماج دشمن عناصر کے خلاف کسی سرکاری عہدیدار کا جنگ چھیڑ نا اور اُنہیں چن چن کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا دل گردے کاکام ہے مگر ایسے انقلابیوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں رات دن مشغول سیہ دل عناصر کے سیاسی آقاؤں کی نگاہ میں کسی بھی آفسر کا یہ کوئی چھوٹا ’’جرم ‘‘ نہیں کہ ان کے چہیتوں لاڈلوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بے وقوفی کرے یا اُن کے ساتھ قانون کی لٹھ لئے دوڑ تا پھرے۔اس قسم کی ’’بے ادبی‘‘ پر دربار ِ سیاست خشم آلودہ ہوتا ہے اور بیک جنبش قلم متعلقہ عہدیدار کاٹرانسفر کراتا ہےیا کسی سیل کی نذر کر کے وہاں مچھر مارنے پرمامور کر جاتا ہے ‘ نہ رہے بھینس بہ بجے بانسری تاکہ آگے بھی ایسا کوئی ’’سرپھرا‘‘ آفسر خواب وخیال میں بھی سماج کو زندہ چبانے والے  مگر مچھوں کا جینا حرام کرنے کی بھول نہ کرے بلکہ دوسرے آفسر ایماندار ی کے متوالوں کی دُرگت وشامت سے عبرت لیں ۔ اس فریم میں جب ہم علمیٰ افروز جیسی خاتون پولیس آفسر کی تصویر دیکھتے ہیں تو اپنی وردی سے بے پناہ وفاداری ‘ قانون کے تئیںاحترام اور غیرقانونی وغیر اخلاقی دھندے بازوں کے خلاف اُن کی جرأت رندانہ کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ البتہ کانگریس کی بالائی قیادت کے لئے یہ ایک امتحان ہے کہ آیا وہ ہما چل پردیش کے ضلع بدی میں بطور سپرانٹنڈنٹ آف پولیس اپنی حُسن کارکردگی کے سبب عوام میں بڑی مقبولیت پانی والی علمیٰ افروز کے ساتھ اپنی یکجہتی ظاہر 

کر کےموصوفہ کی اَن چاہی چھٹی ختم کروا تی ہے اورا ُنہیں واپس  اپنے مصب پر بٹھاتی ہے یا اپنےرسوخ دار اسمبلی ممبر سے پنگا لینے کی سزا بر قرار رکھتی ہے ؟ کچھ بھی ہو‘ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اعلیٰ افسر ہو تو ایسا !