جنگیں اور جنگوں سے جڑی نفسیات
- noukeqalam
- 91
- 14 Dec 2024
✍️:.... معراج زرگر /ترال،کشمیر
جنگیں بذاتہہ اور بنفسہہ ہولناک اور تباہ کن ہوتی ہیں۔ جنگیں اگرچہ نظام عالم کو درست کرنے کے لئے لڑی جانی ہونی ہیں , مگر انسانی تاریخ ایسے ہزاروں وحشتناک جنگوں کا حوالہ فراہم کرسکتی ہے جو انا, ضد, ہٹ دھرمی, مذہبی انتہا پسندی, لوٹ مار, نفرت اور ایسے ہی دیگر بنیادوں پر لڑی گئیں اور انسانیت اور آدمیت کو روندا گیا۔ عہد قدیم میں بادشاہوں اور سلاطین کی جنگیں, آپسی رسہ کشی کی جنگیں, مذہبی جنگیں, دور وسط میں مغلوں, رومن, عثمانوی, منگولوں کی جنگیں اور دور جدید میں صلیبی جنگیں, جنگ عظیم اول اور دوم, خلیجی جنگیں, افغانستان, لبنان, شام, فلسطین وغیرہ ممالک پر مسلط جنگیں انسانوں اور وسائل کی تباہی کی ایک ایسی کھتونی ہے جس کو مورخ جب لکھ کے گیا تو خون کے آنسوؤں کی سیاہی سے لکھ کر گیا۔
کچھ جنگیں کئی معنی میں ناگزیر بھی ہوتی ہیں, اگر چہ اپنے انجام اور تباہی کے تناظر میں بڑی ہولناک ہوتی ہیں۔ دنیا میں طاقتور ممالک کی آپسی رقابت اور اور ہر لحظہ اور ہر آن بدلتے ہوئے ورلڈ آرڈر کے بیچ آخر کار انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔ اور ایک نئی اور مکروہ نفسیات کا جنم ہوتا دکھائی دے رہا ہے, جو اس قدر بدصورت ہے کہ تھوڑا سا شعور رکھنے والے انسان کا اس کی گھن اور بد بو سے دم گھٹتا نظر آتا ہے۔
روس کا یوکرین پر حملہ کئی محرکات کا حامل ہے اور بدلتے ہوئے نئے آرڈر کی ایک بدترین شروعات ہے۔ یوکرین جنگ کا مذہبی پہلو، جو اس جنگ کا سب سے اہم پہلو ہے، جسے مغربی میڈیا جانتے بوجھتے نظر انداز کررہا ہے، آہستہ آہستہ پردہ اٹھ رہا ہے۔ ایک عظیم روسی آرتھوڈوکس اتھارٹی پیٹریارک کیرل نے یوکرین پر حملے کے چند ہفتے بعد ہی کہا تھا کہ یہ تنازعہ وسیع تر روسی دنیا اور مغربی لبرل اقدار کے درمیان بنیادی ثقافتی تصادم کی توسیع ہے، جس کی مثال ہم جنس پرستوں کے فخر کے اظہار سے ملتی ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کیرل کے تبصرے روسی سلطنت میں واپسی کے بارے میں پوتن کے وسیع تر روحانی وژن کے بارے میں اہم بصیرت پیش کرتے ہیں، جس میں آرتھوڈوکس مذہب ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ آرتھوڈوکس کمیونٹی یہودیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قاتل اور خدا کی نافرمان قوم مانتی ہے۔
روس کے یوکرین پر حملے کے تین دن بعد، کیرل نے ایک تقریر میں کہا: "ہمیں تاریک اور دشمن بیرونی طاقتوں کو اپنے اوپر ہنسنے نہیں دینا چاہیے، ہمیں اپنے لوگوں کے درمیان امن برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مشترکہ تاریخی آرتھوڈوکس آبائی وطن کی حفاظت کرنا چاہیے۔ ان بیرونی اعمال سے جو اس اتحاد کو تباہ کر سکتے ہیں۔"
اس جنگ کی ہئیت و ساخت اور احداف پر کوئ جنگی ماہر یا سیاسی تبصرہ نگار ہی اچھی رائے دے سکتا ہے مگر اس کا سب سے بڑا جو پہلو سامنے آرہا ہے اور مجھے محسوس ہو رہا ہے وہ اس سے متاثر ہونے والی انسانی نفسیات اور غیرِ آدمیت ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے قتل اور نقل مکانی اور انسانی وسائل کی تباہی سے خوش اور مطمئن نظر آنے والی نفسیات۔ ایک حیوانی اور عقل و شعور کو حیران اور برانگیختہ کرنے والی نفسیات۔
ارض فلسطین, لبنان, ایران, یمن اور اب شام پر سکوت دمشق کے بعد جنونی اور صیہیونی اسرائیل کی بربریت اور وحشتناک جنگی کاروائیوں سے مکمل طور سیاسی اور ریجنل ٹھیکیداری کا بیلینس بری طرح بگڑ گیا ہے۔ اور مسلمانوں کے لئے مستقبل بھیانک نظر آرہا ہے۔ چاہے وہ مسلمان سنی ہوں, شعیہ ہوں, کرد ہوں, شامی ہوں, ایرانی ہوں, فلسطینی ہوں, گنہگار ہوں یا متقی۔ عذاب سب پہ نازل ہورہا ہے اور اس سے بد تر ہونے والا ہے۔ ایران اور اس کے اتحادی ہوں یا سنی ممالک اور ان کے اتحادی ہوں, سب کی اپنی اپنی جو بھی دلیلیں ہوں, وہ اپنی جگہ مگر میں اس سب سے صرف نظر کرکے اور ان سارے محرکات سے چشم پوشی کرکے موجودہ حالات اور آنے والی قیامت خیزیوں کا انسانوں پر اثرات کا کما حقہ ذکر کرنا چاہوں گا۔
امریکی اور نیٹو کی خلیجی اور وسط ایشیائی ممالک میں اسلحی برہنگی اور جنگی جنونیت کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی نفرت سے ایک نیا غیر انسانی اور غیر شعوری نفسیاتی ماحول اپنی حیوانی خصلت کو مطمئن کرتا نظر آرہا ہے۔ یہ بھی بری طرح محسوس ہو رہا ہے کہ جو اقوام کسی جبریہ قوت کے زیر تسلط ہیں یا کسی بھی طریقے سے کسی جبری قوت سے متاثر ہوئے ہیں, وہ اخلاقیات اور انسانیت کے معیارات کو بھول کر اور اپنے اوپر کئے گئے ظلم یا جاری تسلط کو محسوس کرکے ایک ایسی گری ہوئی اور پست نفسیات کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے انسانیت اور آدمیت شرمسار ہوتی نظر آرہی ہے۔
کشمیری ضرب المثل " تَس مونڈِہ تاوَن یَس نِہ میون ہِیو گوؤ" کے مصداق امریکہ, یورپ اور نیٹو کی افواج سے متاثرہ تمام اقوام اور ممالک اگرچہ روس سے محبت نہیں کرتے اور یوکرین کی طئے شدہ تباہی اور ہزاروں انسانوں اور انسانی وسائل کی بربادی اور تاخت وتاراج کو دل سے محسوس بھی کر رہے ہیں, لیکن امریکہ, یورپ اور نیٹو سے نفرت کی بنیاد روس کی یوکرین پر یورش سے خوش بھی ہیں۔ اس لئے نہیں کہ روس سے کوئی مفاد ہے۔ اس لئے کہ امریکہ, یورپ اور نیٹو کی پس پردہ شکست اور بے بسی سے جیسے سکون مل رہا ہو۔ اس طرح کی نفسیات چاہے کچھ بھی ہو, ایک غیر انسانی اور ردّ نفسیات ہے۔
اسی طرح ایرانی بلاک اپنی نفسیات کو مطمئن کرنے کے لئے سنیوں پر تشدد سے خوش نظر آرہے ہیں اور سنی بلاک شعیوں پر کسی بھی جارہیت سے تسکین پا رہے ہیں۔ اس قسم کی جنگی اور جنونی نفسیات سے جو بھی خوفناک اثرات انسانیت پر مرتب ہورہے نظر آتے ہیں, ان سے ایک عام مسلمان یا ایک عام انسان دلبرداشتہ اور پریشان نظر آرہا ہے۔
کشمیر میں بھی سوشل میڈیا پر اس قسم کا رد عمل اور اس قسم کی نفسیات دیکھ کر اور محسوس کرکے دکھ ہو رہا ہے۔ نئے بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل حالات اور ورلڈ آرڈر پر نظر رکھتے ہوئے ایک عام کشمیری بھی جہاں فلسطین, یوکرین, لبنان اور اب شام پر مسلط جنگوں سے افسردہ ہے, وہیں مسلمان ممالک کے تئیں اقوام عالم خاص کر امریکہ, یورپ, اسرائیل وغیرہ کی جارحیت اور ظلم سے نالان اور تنگ آمد قوم "بہ بغض یزید" روس کی یوکرین پر جارحیت اور اپنی اپنی مسلکی وابستگیوں سے خلیج میں ہورہی خونریزیوں سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
اس ساری جنگی بربریت اور ایک دوسرے کے نقصانات پر اپنی اپنی مسلکی رائے قائم کرنے کے بیچ زرا ایک نظر انسانی تاخت و تاراج اور جنگوں اور تصادم کے بیچ انسانی جانوں اور املاک کے نقصانات کا ایک سرسری جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
الجزیرہ کے کچھ محتاط تخمینوں کے مطابق روس یوکرین جنگ میں دونوں جانب مجموعی طور پر لاکھوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ روس کے مطابق یوکرین کے 900,000 سے زیادہ فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں، لیکن آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ عام شہریوں کی اموات کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 10 ملین یعنی ایک کروڑ سے زائد افراد یوکرین چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں، اور لاکھوں اندرون ملک بے گھر ہیں۔جنگ کے نتیجے میں ہزاروں بچے یتیم ہوئے اور تقریباً 2,500 بچے ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ یوکرین کی معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے، جس میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور اقتصادی سرگرمیوں میں شدید کمی شامل ہے۔ روس پر عائد پابندیوں نے روس کی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے، لیکن اس کا مکمل اندازہ جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ یہ تنازعہ نہ صرف جنگ زدہ علاقوں بلکہ عالمی سطح پر بھی خطرناک اثرات ڈال رہا ہے، خاص طور پر توانائی اور خوراک کے شعبوں میں دنیا بھر کے انسان متاثر ہو رہے ہیں۔
اکتوبر 2023 سے دسمبر 2024 تک فلسطین، خاص طور پر غزہ میں جنگ کے نتیجے میں شدید انسانی اور مادی نقصان ہوا ہے۔ مختلف معتبر ذرائع سے حاصل شدہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اسرائیلی جارہیت سے اب تک 44332 افراد شہید ہوئے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ زخمیوں کی تعداد 105,142 سے زائد ہے، جن میں 69 فیصد بچے اور خواتین شامل ہیں۔ تقریباً 2 ملین یعنی بیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ پہلے سے ہی بے گھر افراد کی 177 پناہ گاہیں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔
350,000 سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور لاکھوں افراد کو بنیادی خوراک اور پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اشیائے خوراک کی خریداری مزید مشکل ہو گئی ہے۔ 17,000 سے زائد بچے اپنے والدین میں سے کم از کم ایک سے محروم ہوگئے ہیں۔ 610 مساجد مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، 122 اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر جبکہ 334 جزوی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ دواؤں کی قلت سے 350,000 دائمی مریض متاثر ہیں، اور صحت کی سہولیات کا خوفناک حد تک فقدان ہے۔
یہ اعداد و شمار غزہ کی حالتِ زار کو بیان کرتے ہیں، جہاں جنگ کے علاوہ بھوک، بے گھری، اور صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے مزید مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ اور آج کا مسلمان اپنی جنگی نفسیات کی تسکین کے لئے فرقہ واریت میں مبتلاء ہے۔
شام کی خانہ جنگی (2011 سے جاری) میں اب تک 500,000 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں عام شہری، بشر الاسد کے حامی اور مخالف جنگجو، اور غیر ملکی فورسز وغیرہ شامل ہیں۔ ہلاکتوں کا بڑا حصہ بشرالاسد اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کا نتیجہ ہے۔ شام کی جنگ کے باعث 70 لاکھ شامی پناہ گزین دنیا بھر میں منتشر ہیں۔ ان میں ترکی میں 36 لاکھ, لبنان میں پندرہ لاکھ, اردن میں تقریبا 7 لاکھ, یورپ کے مختلف ممالک میں تقریبا ایک لاکھ اور دیگر ممالک (عراق، مصر وغیرہ) میں بھی لاکھوں افراد موجود ہیں۔
سکوت دمشق کے بعد جنونی اسرائیل نے شام میں کئی فضائی اور زمینی حملے کیے جن میں عسکری ٹھکانوں، ہتھیاروں کے ذخائر، اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان حملوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن شام کی مجموعی جنگی تباہی کا نقصان 1.2 ٹریلین ڈالر سے زائد ہے جس میں بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور معیشت کی بربادی شامل ہے۔
اس ساری المناک اور دردناک انسانی تباہی اور بربادی کے بیچ جنگی نفسیات سے لبریز انسانی نسلیں ایک دوسرے پر مسلکی سبقت کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں, چاہے اس سبقت کے لئے غیر اقوام کے پیر ہی کیوں نہ چھونے پڑیں۔ امت کے سارے دھڑے ایک دوسرے کی تباہی اور بربادی کے لئے دعاگو ہیں اور دعائیں تیزی سے شرفِ قبولیت بھی حاصل کر رہی ہیں۔ کچھ عظیم پیشن گوئیوں اور انسانوں کے درمیان پیدا ہورہی نفرتوں کے بیچ آنے والا وقت یا تو قیامت کا وقت ہوگا یا قیامت سے ہی ملتی جلتی ایک انسانی بربادی اور تہذیبی تاخت و تاراج کی داستان ہوگی۔