والدین پر اولاد کی تربیت قران و حدیث کی روشنی میں
- noukeqalam
- 176
- 14 Dec 2024
✍️:..... عذراء زمرودہ/ کشمیر کولگام
قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا والدین پر اولاد کی تربیت قران و حدیث کی روشنی میں"
وَالْحِجَارَۃُ‘‘۔ (التحریم:۶)
ترجمہ:’’اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں"
اہل و عیال کو دین کے راستے پر ڈالنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے ،صرف ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے سے اولاد کے حقوق پورے نہیں ہوتے بلکہ ایک مومن کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کے حوالے سے ماں باپ کا پہلا فرض یہ ہے کہ انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کریں ،ان کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کریں، جس سے ان کے قلوب و اذہان میں دین کی سمجھ بوجھ ‘ اللہ کا تقویٰ معرفت اور آخرت کی فکر پیدا ہوجائے تاکہ تمہارے ساتھ ساتھ وہ بھی جہنم کی اس آگ سے بچ جائیں مولانا مودودی رح اس آیت کی وضاحت یوں کرتے ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوشحال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔
روح القران میں ڈاکٹر محمد صدیقی صاحب یوں فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ جب وہ پیدا ہوں تو ان کے لیے نفیس نام تجویز کرے۔ جب وہ بڑے ہوں تو انھیں بہتر تعلیم دے اور جب وہ بالغ ہوں تو ان کی شادی کرے۔ ایک اور حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ کسی باپ نے اپنے بچے کو حُسنِ ادب سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا۔ جب تک والدین بچوں کے حوالے سے اپنی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوشاں رہے ہیں تو اسلامی معاشرہ بہت ساری قباحتوں سے محفوظ رہا۔ لیکن جب سے والدین نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے تو اس کا نتیجہ سامنے ہے کہ اولاد میں نہ ماں باپ کی خصوصیات کا کوئی دخل ہے اور نہ اسلام کے دیئے ہوئے حُسنِ اخلاق کا۔ اور اس پر مزید ظلم ہمارے تعلیمی نظام نے کیا ہے کہ بچپن سے نکل کر بچہ سکول اور پھر کالج اور یونیورسٹی میں تربیت پاتا ہے۔ لیکن جب سے تعلیمی اداروں میں اپنا ہدف صرف نوشت و خواند تک محدود کردیا ہے اور آنکھیں بند کرکے وہ تعلیم دی جارہی ہے جو سرکار کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ اور اسلامی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔ تو نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
یوصیکم اللہ فی اولادکم"
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں نصحیت کرتا ہے۔
اس ایت کا خلاصہ یوں ہے کہ والدیں کو اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں چار امور پر خاص توجہ رکھنی چاہے
مثلا ۱۔اسلام کے عقائد کی تعلیم،صحیح راستے کی رہنمائی و مضبوطی اور استمرار و استحکام پر رغبت دینی چاہئے۔
۲۔بچوں کے واضع طریقہ کار اور پیروی و تابعداری مثلا نماز،روزہ وغیرہ کی جانب رغبت دینی چاہئے۔ گویا کہ نماز کے اصول و قوائد ، غرض یہ کہ نماز کے آداب و عادات کی تعلیم و تربیت دیے۔
۳۔اولاد کے روحانی قوت کی اصلاح سمت عنایت کرنی چاہئے، تاکہ بچوں کو کامل یقین ہو جاہئے، کہ اللہ تعالی سمیع و بصیر ،علیم و خبیر ہے، کائنات کا کوئی بھی زرہ اللہ تعالی سے پوشیدہ نہیں ہے، گویا کہ بندے کے ہر چیز سے واقف ہیں کیونکہ قیامت کے دن ہر چیز کا حساب دینا لازمی ہے، اس کی وجہ سے بچوں میں خودبخود روحانیت کی اصلاح ہو جائے گئ۔
۴۔ اولاد کے اخلاق و خیالات کی پارسائی کریں، مثلا مرتبہ و عظمت کا پاس ولحاظ ، سماجی اور اجتماعی رہن سہن اور اسلام کا منشور سکھائیں۔
بہرحال یہ چاروں چیزیں دونوں جہاں کے لئے انتہائی لازمی اور انجام کار ہیں۔اس کے برعکس اج کل کے والدین کیا کرتے ہیں ،وہ عیاں راچہ بیاں!
یہی فطرت سلیمہ پر پیدا ہونے والے بچوں کو ہم غیروں کی تربیت میں دیتے ہیں English boarding schools کے حوالے کرکے،بول چال کے چند ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے ہم خوش ہوتے ہیں یہاں تک کہ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے صرف دنیاداری اور ہوشیاری و چالاکی کو مد نظر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ہم والدین اخرکار اپنے بچوں کو ہی کھو دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ دنیا واخرت بھی خراب ہو جاتا ہے جبکہ اولاد کے معاملے میں قران کریم کے ساتھ ساتھ احادیث میں بھی واضع نصیحت ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے.
اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم. رواه البخاري.
اللہ سے ڈرواوراپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔
جو شخص اپنی اولاد کو صحیح تربیت دینے میں سستی کرتا ہے اور بے توجہ چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنی اولاد کے ساتھ بدترین سلوک کرتا ہے ۔تربیت کر نے والا بچے کو جس چیز کا عادی بناتا ہے ۔بچہ اسی عادت پر پروان چڑھتا ہے کچھ والدین اپنے بچوں کو جیب خرچ دینے میں بڑا کھلا ہاتھ رکھتے ہیں جس کے سبب انہیں اپنی ناجائز خواہشات پوری کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور والدین سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے بچے پر شفقت کر رہے ہیں حالانکہ وہ ظلم کر رہے ہوتے ہیں ۔سمجھتے ہیں کہ وہ محبت کر رہے ہیں حالانکہ وہ دشمنی کر رہے ہوتے ہیں۔
حاصل کلام ! کاش والدین اس بھاری ذمہ داری کو سمجھتے کہ یہی نو عمر جگر گوشے کل کے جوان ہیں ۔۔۔۔۔اسی تربیت کے حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔۔۔
ما نحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن "، :هذا حديث غريب
"کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھے اخلاق سے بہتر کوئی دولت نہیں بخشی"
یعنی باپ اولاد کو جو دیتا ہے اس میں سب سے بہترین عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گھر کو تربیت گاہ بنا دیا ہے جس تربیت میں گھر کا ہر فرد آداب و انسانیت کے علاوہ عملا اس تربیت کا عادی بن جاتا ہیں، در اصل اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بچوں کے گھر ہی یہلی درسگاہ ماننی جاتی ہیں، اور بچے پہلے درگاہ میں ہی غیر شعوری طور پہ ہوش سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ضرری تعلیم بھی حاصل کرتے جارہے ہیں،عام طور پر ماں باپ کی صحبت سے ہی بچوں پر علم و حکمت کے دروازے کھلتے ہیں جو ہزاروں اور لاکھوں کتابوں سے بھی میسر نہیں ہوتے ہے۔مگر کاش ہمارے والدین اور سرپرست ، تربیت کے حوالے سے اپنی زمہ داریوں کو سمجھتے ۔جب والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا، تب تو اس معاشرے سے اللہ کے مددگار ، عالم ،عابد،مجاہد،پیدا ہوتے تھے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ جب سے والدین اس احساس کو کھو کر لاپرواہی برتنے لگے تو ۔۔۔۔۔۔ نتیجہ عیاں را چہ بیاں !
اخر خرابی کہاں ہے اور زمہ دار کون ہے؟ بہرحال والدین ہی بچے کی اصل تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا......
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤول عَنْ رَعِيَّتِهِ، ( بخاری)
"تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے۔"چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے زیرنگین کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یعنی تمام اہل خانہ و دیگر ضامن و پاسبان اپنی جوابدہی اور حقوق کی عہدہ برآئی کے معاہدہ سے بندھا ہوا ہے، لہزا ہر ایک کو اپنی زمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا، کیونکہ اہل و عیال کی تصحیح کے لئے ایک بنیادی ڈھانچہ یہ بھی ہے کہ اوائل سے ہی نوزائیدہ کے عقل و ہوش اللہ تعالی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت و چاہ سے معمور و مزین ہوتے ہیں۔
بہرحال اس مکمل گفتگو کے علاوہ لازمی فقرہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر اقدام کا سانچا پیش نظر کرتے تھے یعنی جو بات صحابہ کرام کو ذہن نشین کرتے وہ خود عملی طور پر کر کے دکھاتے تھے۔ اب چونکہ لازمی طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان نکات کی درخشاں میں نئی نسل کی تعلیم و تہذیب، اولاد کی ظاہری و باطنی تادیب،فکر و اخلاق اور اصلاح و تربیت کے اقدام تکمیل دیے جانے چاہئے۔
آخر پر اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے والدین و سرپرستوں کو اپنی زمہ داریاں سمجھنے کی توفیق دے تاکہ اس نہی نسل کی صحیح تربیت ہو کے ہمارا سارا بگڑا ہوا معاشرہ بدل جائے امین یا رب۔