مفتی مظفر قاسمی صاحب کی غلط تاویل و تشریح:. ہلال احمد تانترے



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


مفتی مظفر حسین قاسمی صاحب کی غلط تاویل و تشریح


٭ ہلال احمد تانترے

ایک ویڈیو نظروں سے گذری، جس میں کشمیر کے ایک معروف عالم دین مفتی مظفرحسین قاسمی صاحب (دامت برکاتہم) حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کی اُس حقیقت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں جو آپ ؒ پر آپ ؒ کی زندگی کے آخر میں منکشف ہوئی۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے اندر علامہ صاحب اَز خود فرماتے ہیں کہ  ”ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کد و کاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں، جب کہ اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا اور کون سا خطاء“۔

اس حق بیانی کا اظہار علامہ کشمیری ؒ نے مفتی محمد شفیع ؒ کے ساتھ کیا۔ مفتی شفیع صاحب نے اس ساری روداد کو اپنی کتاب وحدتِ امت میں درج کیا ہے۔پوری روداد کو پڑھنے کے بعد دور دور تک اس کا کہیں احتمال نہیں دکھتا، نا ہی کوئی ایسا پسِ منظر سامنے آتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہوں کہ ”مجھے اپنے بڑھوں نے کہا تھا کہ فقہ حنفی احادیث کے مطابق ہے اور میں نے سوچا کہ اس پر تحقیق کروں، جس میں مجھے پھر چالیس سال لگے۔ چالیس سال گذرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میرے بڑے ٹھیک کہا کرتے تھے۔ کاش میں نے پہلے ہی اُن کی بات مان لی ہوتی، مجھے اتنا سارا کام کرنے کی کیا حاجت تھی“۔ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس طرح کی کہانی جناب حضرت مفتی مظفر صاحب اپنے معتقدین کو پڑھا رہے ہیں۔

مندرجہ ذیل اس پوری تفصیل کو بیان کیا جارہا۔ قارئین اَز خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا کہیں مفتی صاحب کی تشریح یا تاویل صحیح دکھتی ہے۔

”قادیان میں ہر سال ہمارا جلسہ ہوا کرتا تھا اور سیدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب بھی اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال اسی جلسہ پر تشریف لائے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ ایک صبح نماز فجر کے وقت اندھیرے میں میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت مغموم بیٹھے ہیں، میں نے پوچھا حضرت کیا مزاج ہے؟ کہا ہاں! ٹھیک ہی ہے میاں، مزاج کیا پوچھتے ہو، عمر ضائع کردی۔

میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں اور دین کی اشاعت میں گذری ہے، ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں، مشاہیر ہیں، جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمت دین میں لگے ہوئے ہیں، آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کسی کی عمر کام میں لگی؟

فرمایا: میں تمہیں صحیح کہتا ہوں، عمر ضائع کردی۔

میں نے عرض کیا: حضرت، بات کیا ہے؟

فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کا، ہماری ساری کدو کاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں، امام ابو حنیفہؒ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں، اور دوسرے ائمہ کے مسائل پر آپ ؒکے مسلک کی ترجیح ثابت کریں، یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔

اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ ابو حنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر کوئی احسان کریں؟ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوائے گا، وہ تو ہمارے محتاج نہیں۔

اور امام شافعیِ، مالک، اور احمد بن حنبل اور دوسرے ائمہ(رحم اللہ) کے مسلک کے فقہاء جن کے مقابلے میں ہم یہ ترجیح قائم کرتے آئے ہیں کیا حاصل ہے اس کا؟ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے مسلک کو صواب محتمل الخطاء ثابت کردیں، اور دوسرے کے مسلک کو خطاء محتمل الصواب کہیں۔ اس سے آگے کوئی نتیجہ نہیں، ان تمام بحثوں، تدقیقات او تحقیقات کا جن میں ہم مصروف ہیں، پھر فرمایا:

ارے میاں! اس کا تو کہیں حشر میں بھی راز نہیں کھلے گا کہ کون سا مسلک صواب تھا، اور کون سا خطاء۔ اجتہادی مسائل صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ان کا فیصلہ نہیں ہو سکتا، دنیا میں بھی ہم تمام تر تحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی صحیح ہے اور وہ بھی صحیح، یا یہ کہ یہ صحیح ہے لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطاء ہو اور وہ خطا ہے اس احتمال کے ساتھ کہ صواب ہو۔ دنیا میں تو یہ ہے ہی قبر میں بھی منکر نکیر نہیں پوچھیں کے کہ رفع الیدین حق تھا یا ترک رفع الیدین، آمیں بالجہر حق تھا یا بالسر حق تھی۔ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے تھا اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔“ (صفحہ 13-14)

مفتی مظفر صاحب کی خدمت میں اس حوالے سے مزید عرض ہے کہ اللہ نے اُن کو اچھی خاصی مقبولیت سے نوازا ہے۔ لوگ اُن کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں۔ اس لیے اگر وہ اپنی باتوں کے اندر علمی چاشنی کے ساتھ ساتھ سنجیدگی کے پہلو کو بھی ساتھ لے آئیں تو حلقہ اثر کچھ زیادہ ہی بڑے گا اور تنائج بھی احسن آئیں گے، ان شا ء اللہ۔
علمی چاشنی و سنجیدگی کے پہلو کی بات ہم نے اس لیے کی کہ ایک دوسری ویڈیو میں مفتی صاحب سے ایک کاغذ کی پرچی پر کوئی صاحب سوال پوچھتے ہیں کہ؛ بہت سارے آج انجینئر مزرا علی کا بیان سنتے ہیں، ان کو کہا جاتا ہے کہ اُس کا بیان مت سنو، وہ کہتے ہیں اِس میں کیا خرابی ہے، یہ بھی تو قرآن و حدیث بیان کرتا ہے۔ مفتی صاحب، اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔ اور اسی طرح غامدی صاحب کے بارے میں بھی۔ مفتی مظفر صاحب جواباً فرماتے ہیں کہ؛
”یہ جو مرزا علی ہے، میں آپ کو ایمانداری کے ساتھ بتاؤں، میں نے بھی اُن کو ایک دو بار سنا، خدا کی قسم اُس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا، ہمارے ناظرہ کا لڑکا اگر اُس کے سامنے کھڑا ہوجائے، وہ اُس کے سامنے قرآن نہیں پڑھ سکتا، حدیث کے الفاظ تو وہ بالکل بھی نہیں پڑھ سکتا۔ جب اُس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا، نہ حدیث پڑھنا آتا، پھر وہ لمبے لمبے تقاریر کریں، اِس کا کیا اعتبار ہے۔ اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ یہ اَن پڑھ مطلق ہے، لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے، خود گمراہ ہے اور جو اِس کے پیچھے پیچھے چل رہیں ہیں وہ بھی گمراہ ہیں۔۔۔۔۔۔، غامدی اُس سے بھی بدتر ہے، انجینئر کو تو داڑھی ہے، غامدی نے تو اپنی شکل عورتوں کی سی بنائی ہے، اُس کو بھی قرآن پڑھنا نہیں آتا۔۔۔۔،حرام اگر اِن لوگوں کو علم ہے۔۔۔۔۔!“

اس جواب کو سننے کے بعد احقر کو بہت تذبذب ہوا۔ وہ اس لیے کہ اگر اس پایہ کا عالم اس طرح سے جوابات فراہم کرے تو اِس قوم کا کیا ہوگا۔ مجھے اُن تمام فتاویٰ پر شک ہونے لگا جو مفتی صاحب نے آج تک دئے ہوں گے۔ وہ اس لیے کہ اگر مفتی صاحب کی تحقیق کا معیار اس قدر غیر معیاری ہے کہ انجینئر کی محض دو ویڈیوز کو سننے کے بعد اُس کے بارے میں اس طرح کی ایک سطحی رائے پیش کرے، تو دوسرے مسائل کے جوابات کو لے کر مفتی صاحب کس طرح کی سنجیدہ تحقیق کرتے ہوں گے۔ اسی طرح سے غامدی صاحب کے ساتھ اختلاف رکھا جا سکتا، یا اُن کو بھی غلط قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن یہ کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ہم اُن کو عورت کہیں، یا محض اُس کے رخت پر تبصرہ کرکے جان چھڑائیں۔ یہاں انجینئر مرزا علی یا جاوید احمد غامدی کی طرفداری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، اُن سے اختلاف رکھا جا سکتا ہے، اُن سے لوگوں کو دور بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن اوٹ پٹانگ باتوں سے نہیں، بلکہ سنجیدہ علمی نقطوں اور مضبوط دلائل سے۔٭٭٭

رابطہ: hilal.nzm@gmail.com

(ادارہ نوکِ قلم کا کسی بھی تحریر کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے، تاہم اگر ہمارے معزز قارئین میں سے کوئی اس مضمون کے جواب میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہے تو وہ ہمارے میل ایڈریس اور وٹس اپ پر اپنی تحریر ارسال کر سکتے ہیں.) 

Noukeqalam2021@gmail.com 

7006715103