استقامت اور آزمائشوں میں کامیابی کا راز



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


✍️:...ڈاکٹر آزاد احمد شاہ

استقامت، انسانی کردار کی وہ بلند و بالا صفت ہے جو کسی مقصد کی تکمیل کے لیے مضبوطی اور ثابت قدمی سے جدوجہد کا نام ہے۔ یہ وہ جوہر ہے جو نہ صرف انسان کو مشکلات اور مصائب کے سامنے جھکنے سے بچاتا ہے بلکہ اسے سربلندی اور کامیابی کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ استقامت کسی فرد کی روحانی، جسمانی اور ذہنی پختگی کا مظہر ہے، جو اسے ہر قسم کے حالات میں ثابت قدم رہنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ عظیم کامیابیاں انہی لوگوں کے حصے میں آئیں جنہوں نے استقامت کو اپنا شعار بنایا۔ زندگی میں آزمائشیں اور چیلنجز ناگزیر ہیں، لیکن یہ استقامت ہی ہے جو انسان کو ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے اور اپنی منزل تک پہنچنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے استقامت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر قائم رہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔" یہ آیت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ استقامت صرف ایک خوبی نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور انعام کا ذریعہ بھی ہے۔

استقامت کا مظاہرہ زندگی کے ہر پہلو میں ضروری ہے، چاہے وہ دینی فرائض کی ادائیگی ہو یا دنیاوی مقاصد کا حصول۔ حضرت محمد ﷺ کی زندگی استقامت کی بے مثال مثال ہے۔ مکی دور میں قریش کی شدید مخالفت، طائف کے سنگین حالات اور جنگوں کے دوران آپ ﷺ کا عزم و استقلال ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ استقامت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔

استقامت انسان کو نہ صرف کامیابی کے قریب لے جاتی ہے بلکہ اس کے اندر صبر، حوصلہ اور توکل جیسی خوبیاں بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ خوبی فرد کو مضبوط بناتی ہے اور اس کے اندر خود اعتمادی کو پروان چڑھاتی ہے۔ ایک مشہور قول ہے: "پتھر کی مضبوطی دریا کے بہاؤ کو روک سکتی ہے، لیکن استقامت دریا کے پتھر کو ریزہ ریزہ کر سکتی ہے۔" یہی استقامت انسان کو شکست کے خوف سے آزاد کرتی ہے اور اسے نئے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔

زندگی کے ہر موڑ پر آزمائشیں انسان کا امتحان لیتی ہیں۔ بعض اوقات یہ آزمائشیں اس قدر سخت ہوتی ہیں کہ انسان مایوس ہو سکتا ہے۔ لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں استقامت انسان کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا:

"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں"

یہ اشعار ہمیں بتاتے ہیں کہ استقامت انسان کو نہ صرف مشکلات سے نکالتی ہے بلکہ اسے مزید ترقی کے راستوں پر لے جاتی ہے۔

تاریخ میں ایسے کئی افراد ہیں جنہوں نے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناممکن کو ممکن بنایا۔ نبی کریم ﷺ کی دعوت حق، کفار مکہ کی شدید مخالفت اور اسلام کی سربلندی کے لیے استقامت بے مثال ہے۔ حضرت ایوبؑ کی بیماری اور مصائب کے باوجود ان کی استقامت ہمیں صبر اور حوصلے کا درس دیتی ہے۔ اسی طرح نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید میں رہنے کے باوجود اپنے مقصد کو ترک نہ کیا اور بالآخر اپنے ملک کو آزادی دلائی۔

موجودہ دور میں استقامت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ آج کے تیز رفتار زمانے میں جہاں مایوسی اور ناامیدی عام ہے، استقامت ہی وہ واحد خوبی ہے جو انسان کو اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ خواہ تعلیمی میدان ہو یا کاروباری دنیا، ہر جگہ استقامت کامیابی کی کنجی ہے۔

استقامت کو پیدا کرنا اور اسے برقرار رکھنا ایک مسلسل عمل ہے۔ اس کے لیے اللہ پر ایمان اور توکل، مثبت سوچ، مشکل حالات کا سامنا، صبر و دعا اور اپنے مقصد کی وضاحت جیسے اصول مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

استقامت زندگی کی وہ دولت ہے جو انسان کو ہر قسم کے حالات میں کامیابی کا یقین دلاتی ہے۔ یہ خوبی نہ صرف دنیوی معاملات میں کارآمد ہے بلکہ آخرت کی کامیابی کے لیے بھی لازمی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی میں استقامت کو اپنائیں اور مشکلات کو شکست دے کر کامیابی کی نئی داستانیں رقم کریں۔