انسان کے تین دوست علم، دولت اور عزت
- noukeqalam
- 121
- 18 Dec 2024
✍️:. ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
انسان کی زندگی میں علم، دولت اور عزت تین اہم ستون ہیں جو اس کے رویے، اخلاق اور کامیابی کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تینوں کسی نہ کسی شکل میں ہر انسان کے دوست کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ان میں سے کون سا دوست سب سے زیادہ وفادار اور مددگار ہے، اس کا اندازہ آزمائش کے وقت ہوتا ہے۔ ہر انسان ان تینوں کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، لیکن وقت اور حالات یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد کون سا عنصر ہے۔
علم انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اور وفادار دوست ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی اور ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ علم انسان کو شعور اور فہم عطا کرتا ہے اور اسے اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے۔ اگر علم نہ ہو تو انسان کی زندگی تاریکی میں ڈوبی رہتی ہے۔ علم نہ صرف دنیاوی کامیابی کے دروازے کھولتا ہے بلکہ انسان کو اخلاقی اور روحانی طور پر بھی مضبوط بناتا ہے۔ اگرچہ لوگ دولت اور عزت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی بنیاد علم پر قائم ہوتی ہے۔ علم کے بغیر نہ دولت کو سنبھالا جا سکتا ہے اور نہ ہی عزت کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسلام میں علم کی فضیلت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی پہلی وحی "اقرأ" یعنی "پڑھ" اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ علم انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔" اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: "علم کی تلاش میں نکلنے والا اللہ کے راستے میں ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔" ان ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ علم صرف دنیاوی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی کا بھی ضامن ہے۔
دولت انسانی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ انسان کو مادی سکون، خوشحالی اور معاشرتی مقام فراہم کرتی ہے۔ دولت کے ذریعے انسان اپنی ضروریات پوری کرتا ہے اور زندگی کو آسان بناتا ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ دولت کو کامیابی کا واحد معیار سمجھتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ دولت انسان کے لیے وقتی خوشی کا سبب بن سکتی ہے لیکن یہ ہمیشہ وفادار نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ دولت ختم ہو سکتی ہے یا انسان اسے کھو سکتا ہے۔ جب انسان کسی بڑی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے، تو دولت بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔
دولت کے نقصانات بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ بعض اوقات دولت انسان کو خود غرض، مغرور اور بے حس بنا دیتی ہے۔ دولت کے نشے میں انسان دوسروں کے حقوق پامال کرنے لگتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کی سب سے طاقتور چیز کا مالک ہے۔ لیکن جب وقت کا پہیہ گھومتا ہے، تو یہی دولت انسان کو بے بس اور لاچار بنا دیتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران اپنی بے پناہ دولت کے باوجود دنیا سے خالی ہاتھ گئے۔ ان کے خزانے ان کی مشکلات کا حل نہ بن سکے اور دولت کا غرور خاک میں مل گیا۔
عزت انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ انسان کی پہچان اور معاشرتی مقام کا تعین کرتی ہے۔ عزت کا حصول آسان نہیں ہوتا بلکہ یہ برسوں کی محنت، اخلاق اور اچھے کردار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عزت ایک بار حاصل ہو جائے تو انسان کو معاشرے میں ایک منفرد مقام ملتا ہے، لیکن اگر عزت کھو جائے تو اسے دوبارہ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ عزت کا تعلق دولت یا شہرت سے نہیں بلکہ انسان کے کردار اور اخلاق سے ہے۔
عزت ایک ایسی دولت ہے جو خاموشی سے کھو جاتی ہے اور انسان کو خبر تک نہیں ہوتی۔ بعض اوقات انسان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اپنی عزت گنوا دیتا ہے۔ جب عزت ختم ہو جاتی ہے، تو انسان کا وجود بے وقعت ہو جاتا ہے۔ لوگ اس کی باتوں اور اعمال کو اہمیت نہیں دیتے اور وہ معاشرے میں اپنی حیثیت کھو بیٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عزت کی حفاظت کرنا انسان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ عزت کا حصول ممکن ہے، لیکن اس کے لیے انسان کو صبر، محنت اور تقویٰ کے راستے پر چلنا ہوتا ہے۔
ان تین دوستوں – علم، دولت اور عزت – میں سب سے زیادہ وفادار اور قابلِ اعتماد علم ہے۔ جب دولت ختم ہو جاتی ہے اور عزت چھن جاتی ہے، تب بھی علم انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ علم وہ طاقت ہے جو انسان کو مشکلات سے نکلنے کا راستہ دکھاتا ہے اور اسے اپنی کھوئی ہوئی دولت اور عزت واپس حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو پہچانے اور انہیں درست کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام عظیم رہنماؤں اور مفکروں نے علم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں علم کو سب سے زیادہ ترجیح دے۔ اگرچہ دولت اور عزت بھی اہم ہیں، لیکن یہ دونوں علم کے بغیر بے معنی ہیں۔ علم وہ بنیاد ہے جس پر کامیابی، خوشحالی اور عزت کا محل تعمیر ہوتا ہے۔ اگر انسان کے پاس علم ہو، تو دولت خود بخود اس کے قدموں میں آتی ہے اور عزت بھی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان کے پاس صرف دولت ہو لیکن وہ علم سے خالی ہو، تو وہ اپنی دولت کو سنبھال نہیں پاتا اور بالآخر اپنی عزت بھی کھو دیتا ہے۔
علم، دولت اور عزت کے درمیان توازن قائم رکھنا انسان کے لیے ضروری ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دولت کے حصول میں اپنی عزت کا سودا نہ کرے اور ہمیشہ علم کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ علم حاصل کرنے کے لیے محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ مثبت اور دیرپا ہوتا ہے۔ علم وہ روشنی ہے جو انسان کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر کامیابی کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔
انسان کی اصل کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں علم کو اپنا سب سے بڑا سرمایہ اور وفادار دوست بنائے۔ دولت اور عزت بھی اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن یہ دونوں علم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں۔ علم انسان کو نہ صرف دنیاوی کامیابی عطا کرتا ہے بلکہ آخرت کی بھلائی کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کو دنیا کی سب سے بڑی دولت کہا گیا ہے۔ دولت اور عزت وقت کے ساتھ ختم ہو سکتے ہیں، لیکن علم ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اسے زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
علم، دولت اور عزت کے درمیان فرق کو سمجھنا انسان کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اپنی ترجیحات درست رکھے اور علم کو سب سے اہم مقام دے، تو وہ نہ صرف اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔ علم کی روشنی میں زندگی بسر کرنے والا انسان کبھی ناکام نہیں ہوتا کیونکہ علم اس کا سب سے وفادار اور مددگار دوست ہوتا ہے۔