منشیات کی سونامی! مرض کی دوا کیا؟
- noukeqalam
- 90
- 19 Dec 2024
✍️:... ش م احمد /سری نگر
7006883587
منشیات کے معاملوں میں جموں و کشمیر نے دہلی اور پنجاب کو چھوڑا پیچھے، پارلیمنٹ میں اعداد و شمار پیش۔۔۔( ’’قومی آواز‘‘ کی سرخی)
2018 سے 2022 تک این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت مقدموں میں مسلسل اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اس مدت میں منشیات کی اسمگلنگ اور نشے کے معاملوں میں 1837 معاملے درج کئے گئے ہیں۔
منشیات کے معاملوں میں جموں و کشمیر نے دہلی اور پنجاب کو چھوڑا پیچھے، پارلیمنٹ میں اعداد و شمار پیش۔( ذیلی سرخی)
جموں و کشمیر میں گزشتہ چند سالوں کے دوران منشیات کی اسمگلنگ میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس بارے میں مرکزی وزرات داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کافی تشویش ناک ہیں۔ ریاست ہیروئن جیسی خطرناک منشیات کی ضبطی کے معاملے میں ٹاپ پر ہے۔ 2018 سے 2022 تک این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت مقدموں میں مسلسل اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اس مدت میں منشیات کی اسمگلنگ اور نشے کے معاملوں میں 1837 معاملے درج کیے گئے ہیں۔مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے بدھ کو 2018 سے 2022 تک کے منشیات کے معاملوں میں ریاستی اعداد و شمار جاری کیے۔ اس اعداد و شمار میں نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک سبسٹینس ایکٹ (این ڈی پی ایس) کے تحت درج معاملوں کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں جموں و کشمیر میں 938 معاملے درج کئے گئے جبکہ 2019 میں 1173 معاملے درج کیے گئے۔ 2020 میں 1222 معاملے درج کیے گئے جو 2021 میں بڑھ کر 1681 اور 2022 میں 1837 ہو گئے۔این ڈی پی ایس کی کارروائی میں ہیروئن جیسی خطرناک منشیات سب سے زیادہ مقدار میں جموں و کشمیر سے ہی برآمد ہوئی ہے۔ جموں و کشمیر سے 273.3 کلوگرام ہیروئن برآمد ہوئی تھی جو دہلی اور پنجاب جیسی متاثرہ ریاستوں سے بھی زیادہ ہے۔ دیگر ریاستوں میں بھی ہیروئن جیسی خطرناک منشیات زیادہ مقدار میں برآمد ہوئی ہیں۔ آسام میں 274.5 کلوگرام ہیروئن ضبط کی گئی ہے، جب کہ چنڈی گڑھ، کیرالہ اور اتر پردیش میں بھی کافی مقدار میں ہیروئن ضبط کی گئی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ منشیات کے استعمال اور اسمگلنگ میں 2020 اور 2021 کے درمیان کورونا کی وجہ سے سرحد کی نگرانی میں چھوٹ نے نیٹ ورک کو کافی فعال کر دیا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے منشیات کے بحران سے نمٹنے کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ جموں و کشمیر میں 5 ڈسٹرکٹ ڈی ایڈکشن سنٹر (ڈی ڈی اے سی) کھولے گئے۔ مربوط بحالی مرکز (آئی آر سی اے)، آؤٹ ریچ اور ڈراپ ان سینٹر (او ڈی آئی سی) جیسی خدمات شروع کی گئیں۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس)، کمیونٹی بیسڈ پیر لیڈ انٹروینشن (سی پی آئی ایل) جیسی خدمات کو فروغ دیا گیا۔ ( روزنامہ’’قومی آواز‘‘ مورخہ ۷؍دسمبر۲۰۲۴)
میری کوتاہ بین نگاہ میںیہ قیامت خیز سرکاری ا عداد وشمار ہندسوں کا کوئی گورکھ دھندا نہیں بلکہ یہ ہم کشمیریوں کے اندر برسوں سے پنپ رہے اخلاقی زوال ‘ اجتماعی انتشار اور سماجی ابتذال کا ایک آئینہ دنیا کے سامنے من وعن پیش کرتے ہیں ۔ پارلیمنٹ جیسے اہم قومی ایوان میں جموں کشمیر جیسے شریف ‘مہذب اور ذہین انسانی معاشرے کی یہ تصویر ہمارے ضمیر کو جھنجوڑنی چاہیے کیونکہ یہ حقائق کی زبانی رُسواکن رنگوں اور بدصورت خدوخال کے ساتھ کھینچی گئی ہے ۔ تصویر دیکھ کر کون گنگنا نے کی جرأت کرے ع یہ وادی کشمیر ہے جنت کا نظارا! کسی کو بھی اچھی نہ لگےمگر ہےیہ بھدی تصویر مبنی برحق ۔ اس نوع کی تصویر کشی کوکردار کشی پر محمول نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ جہاں گھمبیر مسئلے کی جانب قوم کی توجہات مر کوزکرتی ہے‘ وہاں بین السطور ہمیں بھی یہ سندیسہ دیتی ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں ۔ منشیات کی ذلت میں گرفتار جموں کشمیر کو ان سنسنی خیز حقائق کی گرہ کشائی سے گھن تو آنی ہی آنی ہے‘ لیکن ہمیںان کے مضمرات بھانپنے کی زحمت گوارا کرکے گہری نیند سے جا نا ہوگا اور اپنی بگڑی آپ بنانے کی طرف فوری توجہ دینی ہوگی ۔عین ممکن ہے کہ اگر اس گرہ کشائی سے عملا ً جاگ گئے ‘اپنا احتساب کیا‘ اصلاح ِاحوال کی طرف پیش قدمی کی تو اگلی بار جموں کشمیر کے بارے میں یہی ایوان اعلاناً فخر کے ساتھ سند دے سکتا ہے کہ ملک میں یہ خطہ منشیات سے پاک وصاف خطہ ہونےمیں ٹاپ کر گیا ۔ ورنہ ہم آگے بھی روزانہ کی بنیاد مایوسی کے عالم میں یہ منفی خبریں سنتے اور دیکھتے رہیں گےکہ پولیس سری نگر سے کرناہ تک اور جموں صوبے کے اطراف واکناف میں منشیات کے مجرمانہ کاروبار سے وابستہ مافیاپر کہیں چھاپے ڈالتی رہے گی ، کہیں اُن کی گرفتاریاں عمل میں لاتی رہے گی ‘ کہیں اس بد بختانہ دھندے سے بنائی گئیں املاک ‘ جائیدادیں‘ گاڑیاں اور بنک کھاتے ضبط کرتی ر ہے گی ۔ منشیات کے خلاف یلغار اکیلے پولیس کا کام نہیں بلکہ یہ ہمارامشترکہ لائحہ عمل ہونا چاہیے اور اگرہم واقعی حسا س طبع ہیں تو منشیاتی وبا کے موضوع پرپارلیمنٹ میں پیش کی گئی مذکورہ بالا تصویر سے ہوش کے ناخن لینے میں کوئی تاخیر نہیں کریں گے اور بنا چوں چرا اصلاح ِ احوال کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالیں گے ۔ذاتی طور میرا گمان کہتاہے کہ ہماری اخلاقی حِس زندہے ‘ہماری روح میں خیر خواہی ہے اور ہم روشن ضمیری سے کلی طور تہی دامن نہیں ہوچکےہیں ‘ ا س لئے سچ اُگلتی آئینہ نما تصویر میں شاید ہم اپنے سماجی چہرے کوپہچان بھی نہ پائیں گے۔
حق یہ ہے کہ منشیاتی وبا کے بارے میں ان شرم ناک ہندسوں سے صاف صاف مترشح ہوتا ہے کہ اوپری سطح پر ہم کتنے ہی بھلے چنگے اورمسلما مانہ وضع قطع والے نظر آتے ہوں مگر اندرہی اندر کووڈ کی طرح نشے کی ہلاکت آفرین بیماری سے ہم کھوکھلے ہورہے ہیں یا صحیح تر لفظوں میں ہم زندہ لاشوں کے ہجوم میں بدل رہےہیں ۔ ہمارے یہاں منشیات کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی ہوشربا تعداد سے ہماری نیندیں اُڑ جانی چاہیں ۔ بایں ہمہ ہمت ہارنے سے ہمارے درد کا مداوا ہوگا نہیں ‘ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم سب منشیات کوجموں کشمیر سے بیخ و بُن سے اُکھاڑپھینکے کے لئے فوراًسے پیش تر جاگ جائیں‘ اپنی کمر ہمت باندھیں اور منشیات کی سونامی ہمارے دروازوں تک پہنچ نہ پائے‘ اس کے لئے ہمیں لازماًمنشیات مخالف مہم میں جموں کشمیر پولیس کو ہر ممکن تعاون دیناہوگا ‘ بلکہ سچ میں منشیات کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا بے لوث سپاہی بنناہوگا۔ اس نیک کام کو ایک عظیم عبادت سمجھنا ہوگا تب جاکر ہم اپنے وطن کو مزید تباہی سے بچا پائیں گے۔ ویسے بھی یہ پاک مشن ایک ناگزیر اجتماعی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے‘ کیونکہ ہمیں اس امر کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے کہ جہاں بھی کوئی بدی یابرائی دیکھیں ‘اس کا اپنے ہاتھ سے قلع قمع کریں ‘ ایسا ناممکن ہو تو پھر زبان اورقلم سے جتنی ممکن ہو اس کی مخالفت میں رائے عامہ ہموارکریں‘ یہ کرنا بھی حد ِ امکان سے باہر ہو تو کم ازکم زندہ ضمیری کاادنیٰ تقاضا یہی ہے کہ دل میں اُس بدی اوربرائی کے خلاف ہمہ وقت بغض وعداوت رکھیں ۔ ا س نقطہ ٔ نظر سے نشہ بازی کی ذلت کی بیخ کنی میں خصوصیت کےساتھ ا یمہ مساجد ‘ اسکالرز ‘ دانش وروں ‘ صحافیوں‘ سول سوسائٹی ‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور والدین سمیت تمام بہی خواہ لوگوں کو منشیات فروشی کےانسان دشمن دھندے بازوں کو کیفر کردارتک پہنچاننے میں چار وناچارہراول دستہ بنناہوگا۔ یہی ایک وحد راستہ ہے جس پر اکھٹے ہو کے جموں کشمیراس وبا سے گلوخلاصی حاصل کرسکتا ہے ۔
افسوس صد افسوس کہ وہ خطہ ٔکشمیر جس کی شناخت رُوحانیت ‘ معرفت‘محبت اورمودت کے چار ستونوں پر اُستوار مانی جاتی تھی‘ آج ’’پیر واری ‘‘ کہلانے والا وہی خطہ نشہ بازی کے اڈے کے طور ہمسایہ ریاستوں پر اپنی برتری قائم کر نے والا بنا ہواہے ‘ اس پر کلیجہ منہ کوکیوں نہ آئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔پارلیمنٹ میں وادی کشمیر میں منشیات کی وبا سے متعلق جو سرکاری اعداد وشمار پیش ہوئے ‘وہ ہم سب کے رونگھٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہیں۔ یہ انکشافات کسی بھی مسلم اکثریتی ریاست کے سنجیدہ فکر لوگوں پر سربازارزناٹے دار طما نچے مارنے کے مترادف ہیں۔ بلاشبہ یہ ہندسے اُن مبلغین ‘ وعظ خوانوں ‘ مذہبی شخصیات اور دینی تنظیموں اور تحریکوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں جو اپنے بیانات اور وعظ وتبلیغ میں نوجوانوں اوربزرگوں سے بار باردل سوز اپیلیں کر تے نہیں تھکتے کہ ایک صالح مزاج مذہبی سماج اور اخلاقیات کے معراج پر فائز معاشرہ ہونےکی حیثیت سے کشمیر کاپیر وجوان اخلاقاً چست دُرست ہو‘ وہ نشے کی بری لت سے باز رہنے والا ہواور اگر کوئی اِ کا دُکا اس کے شکنجے میں آ بھی چکا ہو وہ نشہ بازی کو فوری طور ترک کرکےتوبہ واصلاح کی راہ پکڑنے والا ہو ۔ میرے خیال میں اعدادوشمار پر مبنی یہ تند وتلخ حقائق اُن سماجی کارکنوں ‘ ریفارمرز ‘ متعلقہ این جی اوز اور ڈی ایڈکشن سنٹروں کے سامنے بھی ایک بے عیب نقشہ اوربے غبار آئینہ لاکھڑا کرکے بزبان ِ حال اُنہیں باو ر کراتاہےکہ تمہارا سماج سدھار مشن فلاپ‘ تمہاری اصلاحی سعی وجہد کھوکھلی ‘ تمہاری سرگرمیاں ڈھکوسلہ ۔ ان منفی ہندسوں سے اُن والدین کو فکر وتشویش لاحق ہونی چاہیے جو اپنے بچوں کا شاندار مستقبل بنانے کے خواب بُنتے بُنتے اپنا سب کچھ تج دیتے ہیں جب کہ اُن کے بچے اور بچیاں کتاب اور قلم سے منہ موڑ کر منشیات کے ہتھے متواتر چڑ ھتے جا رہے ہیں اور اپنے مستقبل کی زرخیز کھیتی کو بنجر بنانے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ ہندسے یوٹی حکومت پر بھی بالفعل تیکھی تنقید کرتے ہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت دینے یا کم ازکم اُ ن سے سیلف ایمپلائمنٹ اسکیموں سےا ستفادہ کر وانے میں ناکام رہ کر حکومت ہماری جواں نسل کو فرسٹیشن اور خود فراموشی کی جانب متواتر دھکیلتی جا رہی ہے ۔اس معاملے میں حالات اور زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہوتے ر ہیں گے تاوقتیکہ حکومت پبلک اورپرائیوٹ سیکٹر میں نوجوانوں کو کھپانے کی پالیسی نہیں اپناتی ۔
تاریخ کا ورق ورق گواہ ہے کہ صدیوں تلک اَہالیانِ کشمیر غربت ‘ناخواندگی‘ بیماری ‘ آسمانی آفات‘ زمینی بلیات‘ معاشی کسمپرسی ‘سیاسی محرومی اور طرح طرح کی مظلومی کا تختہ ٔ مشق ہونے کے باوجود ا س قدر ہوش والے اورجرأت مند تھے کہ اپنے وطن کشمیر کو ارضی ِجنت نظیر ہونے کے اعزاز کو ذرا سی زک بھی نہ پہنچنے دی ۔ کارخانۂ قدرت نے اس سرزمین پر اپنے حسن وجمال کے ایسے ایسے انمول تحائف بے حساب انڈیل دئے کہ پوری دنیا میں وادی ٔ کشمیر کو بہشت نما سرزمین ہونے کی انفراد یت حاصل رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ایک ایک کر کے یہ سارے تحائف واعزازات بڑی تیزی سے ہماری ناقدری اور خود غرضی کی بھینٹ چڑ ھ کر قصہ ٔ پارینہ ہو تے جارہے ہیں ۔ تاہم جب تک کشمیریوں کی ان کے تئیں قدر ومنزلت زندہ رہی یہ مظاہرقدرت اپنی جوبن پر رہے۔ آج وہ بات نہیں ۔ بہرکیف اس سرزمین کی خوب صورتی سے شاعروں کی نگاہ ِ تیز بین محو حیرت ‘ دل خوش اور جگر چاک ہوئے‘ ا س نے بادشاہوں کے دماغ چکرائے ‘اس کی منفردرونقوں سے فطرت کے پرستار سیاح مسحور ہو ئے بنا نہ رہ پائے ‘ رُوحانیت ا ورعلم وعرفان کے متلاشی درویشان ِ خدا مست وادی کی بے پناہ روحانی داد ودہش میں گم ہو تے چلےگئے۔ مغلوں نے خاص کر اسے اپنی سیرگاہ بنانے کی نیت سے دیدہ زیب باغات‘ عالی شان مساجد اور دیگرعمارات کی تعمیر کر کے ہیرے کی طرح تراشا اور دلہن کی طرح سجایا ۔ مغل ہندوستان کے بادشاہ تھے ‘ دلی اُن کا پایہ ٔ تخت تھا‘ میدان ِ جنگ اُن کا کعبہ ٔ مقصود تھا‘ تیر وتلوار اُن کا بادشاہانہ مشغلہ تھا مگر تھے تووہ بھی انسان ہی ‘اُنہیں اپنے آرام و سکون کے لئے سکوت آور سماں اور قدرت کی سجی سجائی سرزمین کی جستجو تھی ‘ یہ جستجو اُنہیں کشمیر کے روح پرور مناظر قدرت کی آغوش میں کھینچ لائی ‘ یہیں اُن خوش مزاجوں کو سکون ِ قلب کا سارا سامان وافر مقدار میں نصیب ہوا۔ اہل ِکشمیر مغلوں کے تابع ٔفرمان ضرور تھے مگرا پنی شریفانہ اور مہذبانہ شناخت سے کوئی سمجھو تہ کئے بغیرانہوں نے راتوں رات امیر بننے کے لئے منشیات جیسے ذلیل دھندے نہ اپنائے بلکہ اپنی تردماغی اور چرب دستی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا سے منوا نے کی مہذبانہ جستجو نہ چھوڑی ‘ انہوں نے سنگین معاشی بدحالی والےحالات میں بھی اپنی محنت ومشقت کی مشعل فروزاں رکھی‘ اپنی معیاری اور مثالی دست کاریوں علی الخصوص منفرد انداز کی قالین بافی اور لامثال شال بافی کی بدولت ایشیا سے لے کر یورپ وامریکہ تک سب کوان نیک نفوس قدسیوں نے دادِ تحسین پاکر سب کواپنا گرویدہ بنا کر چھوڑا۔ یہ سیدھے سادھے محنت کش بندگانِ خدا ہماری ملّی و معاشرتی شناخت کے اصلی مورث اعلیٰ تھے ۔ اور ایک ہم ہیں کہ ان کی بے داد ہنرمندی کے ورثے پر کھڑی وطنی شاخت کو اب نشہ بازی کی منفی شکل سے مسخ کر کے اپنی جڑیں کاٹنے کا سیاہ کارنامہ آپ انجام دئے جارہے ہیں۔ دوسال قبل مجھے فیملی وزٹ پر برطانیہ جانے کا موقع ملا تو از راہ ِ تجسس برٹش میوزیم لندن میں کشمیر کے کانی شال سمیت عظیم ہنرمند ہاتھوں سے بنیں دیگر کشمیری مصنوعات اور کئی نامور کاریگروں کی تصاویر جب وہاں نمایاں دیکھیں تو میرا سر فخر سے اونچا اور سینہ چوڑا ہوا کہ میرا وطن بھی عالمی سطح پردنیا ئے صناعی میں کسی شمار وقطار میں کھڑاہے مگر آج منشیات کی وبا میں دوسری ریاستوں پر سبقت بنانے سے اوروں کی طرح مجھے بھی شرمساری کے احساس نے ڈَس کر اپنے ہی عرق ِ انفعال میں سرتا پا ڈبودیا۔ بہر کیف آج ہم ایک مہذب وترقی یافتہ ڈیجٹل دنیا میں جی رہے ہیں‘ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج میں سکڑ چکی ہے‘ اس دنیا میں اگر ہم سر اٹھاکر جینا چاہتے ہیں توہم سب پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے جوانوں کو آہ ِ سحر اور نوربصیرت سے مالامال کردیں ‘ انہیں اپنے اسلاف جیسا سادہ مزاج ‘ جفاکش اور حلیم الطبع بنانے کی مقدور بھرکاوشیں کریں ‘ انہیں تعلیم وتربیت کا فیضان بخشیں ‘ اُن میں منشیات کی تباہیوں سے اپنا بچاؤ آپ کر نے کی جرأت وہمت پیدا کریں ‘ انہیں اپنے اسلاف کی مانند اختراعی صلاحیتوں سے دنیا کو متاثر کرنے کا حوصلہ دیں ‘ اُ نہیں چرب دستی وتردماغی کی شاہراہ پر قدم بڑھانے والا بنائیں ‘ جدید دنیا میں اپنی صحت مند روایات سے پیوستہ رہتے ہوئے ان میں تعمیر و ترقی کی مسابقتی دوڑ میں سب کو پچھاڑنے کا جنوں بھر دیں ‘ روایتی فنون و ہنر مندیوں کے میدان میں اُنہیں لازوال کنٹربیوشن کے روشن چراغ جلائے رکھنے والے بنائیں ۔ یہی ایک واحد راستہ اور کارگر فارمولہ ہے جس پر چل کر ہم منشیات جیسی ذلت سے نجات پاکر جد ید دنیا میں ایک مثالی معاشرے کا روپ دھارن کر سکتے ہیں۔