زندگی دوسروں کے لئے جینے کا نام ہے



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


✍️:..... غازی سہیل خان 

سوشل میڈیا پر ہمیں دنیا کے چپے چپے کے متعلق معلومات ہوتی ہیں کہ کون کہاں کس حال میں ہے،دنیا میں کون بھوکا پیاسا سویا اور کس نے لذیذ اور شاہانہ کھانا تناول کیا وہ بھی معلوم ہوتا ہے،کس نے اپنا پانچواں حج اور ساتواں عمرہ مکمل کیا اس کی بھی تفصیلات ہمیں دستیاب ہیں، کس نے کون سی اور کتنی مہنگی گاڑی خریدی سوشل میڈیا کی وساطت سے وہ بھی معلوم ہوہی جاتا ہے. لیکن افسوس ہم عصر حاضر میں اپنے محلے اور گاوں کے لاچار، اور بے بس و بے سہارا افراد کے حال سے اس قدر نابلد و ناآشنا ہیں کہ کوئی سانحہ ہونے کے بعد ہی ہم جاگ جاتے ہیں، بظاہر ہمارے سماج میں چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ظاہری طور بڑے آسودہ حال لگتے ہیں، اُن کا پوشاک بھی ہمیں اُن کے حال کے متعلق دھوکے میں رکھتا ہے لیکن ان کے اندرونی حالات انتہائی قابل رحم ہوتے ہیں  . یہ جو آئے روز مختلف قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں یہ اصل میں، سماجی کارکنوں، سیاسی کھلاڑیوں، فلاحی تنظیموں اور مذہبی ٹھیکہ داروں کے منہ پر  زور دار طما چے ہوتے ہیں .اس مادی دنیا کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس نے ہم سے دوسروں کے لئے جینے کی تمنا اور تڑپ چھین لی ہے.وہیں اس انسانیت کُش نظام تعلیم نے ہمارے لئے مقصد زندگی کو بس دولت کمانا ٹھہرایا ہے.نظام سیاست و حکومت، مخلص اور قوم کے حقیقی غمخواروں کو دوسرے کے لیے جینے نہیں دیتے.ایسے حالات میں پیسے اور زرق، اچھے کیریئر کی تلاش میں مختلف قسم کے واقعات کا رونما ہونا کوئی انوکھی یا آخری بات نہیں.جب تک یہاں مجبوروں اور لاچاروں کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنایا جائے تب تک کوئی ان کی مدد کرنے کے بارے میں ہزار بار سوچتا ہے،یعنی ایک مجبور اور حاجت مند کو ہمارے معاشرہے میں پہلے اپنی عزت نفس کو پامال کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جیسا فیس بک اور دیگر سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر ہم دیکھتے بھی ہیں. 

ہمارے سماج میں بے بسوں اور لاچاروں کو سوشل میڈیا پر آنے کے لئے کیوں مجبور کیا جاتاہے ...؟ بہت ساری بیٹیاں ایسی بھی ہیں جو شادی کی عُمر کی حدوں کو پار کرکے اپنے ہاتھ پیلے ہونے کی حسرت میں اپنے باپ کے گھر نفسیاتی مریض بن کے بیٹھیں ہیں، ہمارے سماج میں بہت سارے گھر اور خاندان ایسے بھی ہیں جو زندگی جینے کے لیے  ترستے اور تڑپتے ہیں،وہیں چند مجبور اور مفلوک الحال ایسے بھی ہیں جن کو اپنی زندگی روے زمین پر ایک بوجھ محسوس ہوتی ہے کچھ بے بس اور لاچار بزرگ ہمدردی کے لیے ترس رہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ہمارے اور آپ کے نیک مشوروں اور رہنمائی کی ضرورت ہے، کچھ طلبہ اور نوجوان جو قابل ہیں آگے کچھ کر سکتے ہیں جو آگے پڑھناچاہتے ہیں وہ ہماری تھوڑی سی مدد سے اپنے خواب پورے کر سکتے ہیں .اور افسوس تب ہوتا ہے جب کوئی اپنی مجبوری کے سبب کوئی ایسا عمل شروع کر دیتا ہے جس کی سماج اجازت نہیں دیتا تو بہت سارے دین کا علم رکھنے والے لوگ غربت کے علاج کے لیے صبر کی تلقین اور حلال و حرام کے فتوے صادر فرماتے ہیں.واے حسرتا

بقول شاعر 

لایا گیا مقامِ خودکشی تک ہمیں

پھر فتویٰ لگایا گیا مرنا حرام ہے

میرے کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جائے کہ میں سماج میں  خُدا نخواستہ غلط اور حرام فعل کے حق میں ہوں  یا ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں جو کسی غیر اخلاقی یا غیر قانونی عمل میں ملوث ہوں بلکہ میرا کہنا یہی ہے کہ ہمیں اپنے محلے، ہمسائیگی میں دیکھنا چاہیے کہ کیا کوئی مجبور تو نہیں؟ کیا کسی کو کھانے کی ضرورت تو نہیں، کیا جو ہمارے محلے گاوں میں ظاہراً اچھا اور خوبصورت لباس زیب تن کر کے چل رہا ہے کہیں وہ آپ کی اور میری مدد کا محتاج تو نہیں..... ؟

وہیں اس بد قسمت قوم کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس نے کبھی بھی دردمندوں اور قوم کے تئیں ہمدردی رکھنے والوں کا ساتھ نہیں دیا.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں جاگنا ہوگا اور اُن پاک باز اور مخلص افراد کا ساتھ دینا ہوگا جو سماج کے تئیں درد رکھتے ہوں بلکہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے آگے آنا ہوگا.میں یوں کہوں گا زندگی دوسروں کے لئے جینے کا نام ہے. اس لیے ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اوروں کے لیے جینا سیکھیں. 

رابطہ :. 7006715103