دینی جماعتیں ،اکرام مسلم ،ملت کا مشترکہ سرمایہ ہے



Support Independent and Free Journalism


نوک قلم اردو ایک آزاد صحافتی ادارہ ہے۔ ویب سائٹ پر فحش اشتہارات کی موجودگی کی وجہ سے گوگل اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب ویب سائٹ کی فعالیت جاری رکھنے اور معیاری مواد فراہم کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ نیچے دیے گئے بٹن پر کلک کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق روزانہ ہفتہ واری ماہانہ اپنا تعاون فراہم کر سکتے ہیں تاکہ ہم مالی مشکلات کے بغیر آپ تک بے باکی و غیر جانبداری سے ہر طرح کے مضامین پہنچا سکیں۔ شکریہ


کے اللہ کے ولیوں نے تہجد کے وقت اپنے ہی نیک و دیندار بھائیوں پر لاٹھی ،ڈنڈے برسائے ۔ گروہ کی شکل میں حملہ آور ہوئے یہاں تک کے اللہ کے نام  پر جمع ہونے والوں میں سے چار بھائی شہید اور کم وبیش سو نفوس قدسیہ زخمی ہوگئے جو مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔

نماز کی تحریک اور لوگوں کو مسجد سے جوڑنے میں تبلیغی جماعت کی مساعی جمیلہ ،ان کا اخلاص ،اکرام مسلم اظہرمن الشمس ہے ۔

لیکن اس طرح کی خون ریز ی ملت کے کاموں کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ جو اعتماد برسوں دین کی محنت اور قربانی سے بنا اس کے تار و پود بکھرنے لگتے ہیں۔ 

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں امیر

مقام افسوس کہ آج جب چہارم جانب سے ساری دنیا میں  اسلام ،مسلمانوں اور ان کی جماعتوں ،مدارس ومکاتب،مزاروں پر باطل قوتیں ہر طرح سے   سام ،دام،دنڈ، ،بھید،تیر ،تفنگ قلم ،میڈیا اور اپنی ٹرول آرمی،اور انتظامیہ،ایجنسیاں، کے ذریعہ اسلامو فوبیا ،لو جہاد ،دہشت گردی ،فنڈامینٹلسٹ،حجاب ،طلاق،کے نام پر اپنے ہتھیار اور بلڈوزر سے لیس مسلسل حملہ آور ہیں۔ایسے میں مسلمانوں کی  ایک ہی مقصد کے لیے کام کررہی دینی جماعت کے دو گروپوں کی خونریز لڑائی نے باطل کے کارندوں کو  چٹپٹا مسالہ فراہم کردیا ہے ۔ یہ نہ صرف تبلیغی جماعت اور شوری والوں  کے لیے ،بلکہ دین کا کام کرنے والی ساری جماعتوں اور پوری ملت اسلامیہ کے لیے شرم ناک،افسوس ناک ،گردن کو جھکا دینے والا واقعہ ہے ۔

انسانی معاشرے میں افراد سے فرو گزاشت ،تسامیح اور کچھ اجتہادی غلطیوں کا ہو جانا ممکن ہے۔لیکن ان کا حل ڈھونڈنا بھی صالح معاشرے ہی کی ذمہ داری ہے ۔

میرے استادمولانا عبد الرشید عثمانی رح فرماتے تھے کہ

اس دور میں اگر کوئی اپنے گھر میں بیٹھ کر ،معمولی فیس لے کر بچوں کو قائدہ بغدادی ،یسرنالقرآن پڑھا رہا ہے تو وہ بھی دین کی بہت بڑی خدمت کر رہا ہے۔

یہ وقت اپنے احتساب اور جائزے کا ہے ۔حضرت مولانا سعد صاحب اور مجلس شوری والوں کے درمیان اختلاف کی خلیج کو پاٹنے اور مل بیٹھ کر اتحاد کی سبیل نکالنے کی ضرورت ہے۔

اقتدار اور سلطانی آنی جانی  چیز ہے۔ قیادت کی شفافیت اور مشاورت مسائل کا حل ڈھونڈ سکتی ہے۔ 

پیارے نبی حضرت محمد صلعم نے اجتماعیت کے آداب اور مسائل کے حل اور اختلاف  سے نمٹنےکا طریقہ بھی سکھایا ہے۔

ملت کی دیگر دینی جماعتیں ،تنظیمیں اور درد مند دل رکھنے والے اصحاب، فکر مند ہیں کہ اتنی مخلصانہ جدوجہد کرنے والے ،قبر وحشر پر اپنی نگاہ رکھنے  والے کیسے اس حد تک گزر سکتے ہیں۔

جب زخم تھا معمولی تب کی نہ مسیحائی

نادان طبیبوں نے  ناسور  بنا ڈالا

ابھی بھی وقت رہتے مل بیٹھ کر آپسی مسائل حل کرلینےکا موقع ہے۔  با شعور علما و دانشوران ملت کو چاہیے کہ وہ دونوں گروپوں میں مصالحت اور آپسی مت بھید کو دور کرانے کی جدوجہد کریں۔ بالخصوص دارالعلوم دیوبند،مسلم پرسنل لاء بورڈ،مسلم مجلس مشاورت کے ذمہ داران اور  اکابرین ملت متوجہ ہوں۔

اللہ ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں قرآن کا تصور دین اور اس کی گہری بصیرت عطا فرمائے( آمین)